Wednesday, June 20, 2012

اسلام اور منشیات

اسلام نے ہر ایسی چیز کے استعمال کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جس سے انسانی زندگی اور صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہو یا جس سے مال کے تلف ہونے اور ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔ دین اسلام ہم میں سننے، دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں کے بارے میں باز پرس کا احساس پیدا کرتا ہے لہذا ہر ایسا عمل جس سے انسان اپنی سوچ، سمجھ اور عقل و خرد کی استعداد سے کام لینا ترک کردے اور یوں اپنے فرائض منصبی سے غافل ہوجائے وہ ایک ناقابل برداشت جرم ہے اسی لئے اسلام میں شراب اور تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے اس سلسلہ میں ایک واضح شرعی اصول بیان فرمایا ہے :

Monday, June 11, 2012

منشیات کا استعمال ، صحت یا عدم صحت؟

منشیات کا استعمال فرد کو انفرادی و اجتماعی فرائض کی بجاآوری سے روکتا ہے، انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت تباہ کردیتا ہے، انسان کو زندہ درگور کردیتا ہے اور خود کشی کا رجحان بڑھاتا ہے جو اسلام میں گناہ کبیرہ ہے۔ جو لوگ اس گناہ میں ملوث ہوجائیں ان کے لئے سزا کا حکم ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں منشیات کے استعمال سے بڑے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے:

Thursday, June 7, 2012

عربی زبان میں منشیات کے لئے الفاظ


عربی زبان میں منشیات کے لئے مخدر (جمع مخدرات) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کی ادائیگی کے لئے عربی کے کچھ اور الفاظ بھی ہیں۔ عربی لغت کی کتابوں میں مخدر اور مفتر دونوں قریب المعنی لفظ ہیں۔ لسان العرب میں ہے

الفتر، الضعف یعنی کمزور۔ فتر فورا کا مطلب ہے لانت مفاصلہ و ضعف یعنی اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ گئے اور وہ کمزور ہوگیا‘‘۔’’

المصباح المنیر اور معجم متن اللغۃ میں ہے

’’کسی عضو کے خدر کرنے کا مطلب ہے وہ ڈھیلا پڑگیا اور حرکت کے قابل نہ رہا اور خدرت عینہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی آنکھ خس و خاشاک یا تنکا وغیرہ کی وجہ سے بوجھل ہوگئی۔ الخدرۃ کا مطلب کمزوری ہے اور الفتور اعضاء اور جسم کو پہنچتا ہے‘‘۔
امام القرافی نے اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ میں مسکر، مرقد اور مفسد میں فرق بیان کیا ہے

وہ یہ کہ مسکر وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے مگر حواس قائم رہیں، نشہ باز سمجھے کہ وہ نشہ میں ہے، وہ اپنے کو مسرور اور بہادر، سخی اور مضبوط دل سمجھے۔ مرقد یہ ہے کہ جس سے حواس خمسہ جاتے رہیں جیسے بھنگ۔ مفسد وہ ہے جو عقل میں خلل ڈال دے جیسے حشیش اور دیگر منشیات جو بعدمیں موجود چاروں انسانی خوطوں Humours یعنی خون، بلغم،صفرا اور سودا کو ابھاردے۔ لہذا ان منشیات کے استعمال کنندگان کی نوعیت سے ان (منشیات) کے اوصاف اور اثرات مختلف ہوجاتے ہیں جس کا مزاج صفراوی ہو اس میں حدت پیدا ہوجاتی ہے۔ بلغمی مزاج والے پر غنودگی اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ سوادوی مزاج والا رونا دھونا شروع کردیتا ہے اور دموی مزاج والا مسرور ہوجاتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ منشیات استعمال کرنے والوں میں کوئی تو زور زور سے رورہا ہے، کوئی بالکل خاموش ہے اور کسی کے سرور و انبساط میں اضافہ ہوجاتا ہے‘‘۔

Monday, June 4, 2012

منشیات


اﷲ عزوجل نے تمام بنی آدم کو مکرم و محترم ٹھہرایا ہے۔ اس نے ان کے لئے طیب چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اﷲ نے انسانوں کو ہر اس چیز سے روکا ہے جو ان کے دین کو خراب کردے اور ان کے مفادکو نقصان پہنچائے۔ شریعت اسلامی نے پانچ ضروریات جن پر صالح معاشرہ کا قیام ہوتا ہے ، کی حفاظت فرض قرار دی ہے یعنی جان، عقل، دین، مال اور عزت۔ محکم نصوص کی رو سے ہر وہ عمل حرام ہے جس سے ان ضروریات خمسہ کو نقصان پہنچے۔

Friday, May 18, 2012

HISTORY OF ANTIBIOTICS. MODE OF ACTION , HEALTH EDUCATION , ICSP , URDU / HINDI


HISTORY OF ANTIBIOTICS. MODE OF ACTION , HEALTH EDUCATION , ICSP , URDU / HINDI





http://www.youtube.com/watch?v=YH0TIJUIc4c

خواب آور و سکون بخش ادویات

وہ ادویات جو ڈاکٹر ذہنی الجھنوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے تجویز کرتے ہیں ان کو نشہ آور (سکون بخش) ادویات کہاجاتا ہے۔ جسم پر ان کا اثر بالکل خواب آور گولیوں سے ملتا جلتا ہوتا ہے جو دماغی کارکردگی کو سست رفتار بناتی ہیں۔ نشہ آور (سکون بخش) ادویات عموما گولی یا کیپسول کی شکل میں منہ کے ذریعہ سے نگلی جانتی جو سفید، پیلی یا زرد رنگ کی ہوتی ہیں۔ بعض عام استعمال ہونے والی نشہ آور ادویات میں لبریم (Librium)ایٹی وان (Ativan) اور ویلیم (Valium) ہوتی ہیں جنہیں ڈائزایام (Diazepam) بھی کہا جاتا ہے۔

نسوار

صرف ایک چٹکی نسوار۔۔۔ جو دنیا ہی بدل دے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ یہ کہنا ہے اسے استعمال کرنے والوں کا۔ یوں تو دنیا میں بہت سے نشے ہیں لیکن نسوار کا نشہ بھی ایسا نشہ ہے جو بھی اس کی ایک چٹکی لگاتا ہے اس کے دماغ کی بتیاں روشن ہوجاتی ہیں۔ نسوار صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں استعمال کی جاتی ہے۔ نسوار 1493-96 میں کولمبس کی جانب سے امریکہ کی دریافت کے سفر کے دوران Ramon Pane نامی راہب نے ایجاد کی۔ چین میں 1638ء میں پوری طرح نسوار کی مصنوعات پھیل گئیں۔ نسوار کا استعمال ابتدائی طور پر امریکہ سے شروع ہوا اور یورپ میں 17ویں صدی سے یہ دنیا بھر میں عام ہوئی۔ 
نسوار استعمال کرنے والوں میں نپولین بوناپارٹ، کنگ جارج تھری کی ملکہ شارلٹ اور پوپ بینڈکٹ سمیت کئی ملکوں کے بادشاہ شامل ہیں۔ہندوستان میں غیر ملکی کمپنیوں کی آمد کے ساتھ یہ مصنوعات اٹھارہویں صدی میں متعارف ہوئیں اور اس کا استعمال پاک و ہند میں پھیل گیا۔ نسوار کی موجود اقسام میں ہری نسوار اور کالی نسوار کا استعمال عام ہے۔ جو تمباکو،کوئلے کی راکھ، چونے کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ کالی نسوار کے لئے خصوصی تمباکو صوابی سے آتا ہے جس پر حکومت ٹیکس لیتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ نسوار پختونوں کی ثقافت ہے محض غلط فہمی اور کم آگاہی پرمنحصر ہے۔

گٹکا

پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے شرمناک لمحات کو بھلادینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہذا وہ لوگ جنہوں نے گٹکا ایجاد ہوتے دیکھا یا وہ لوگ جو گٹکے سے محض اپنے نشہ کی لت پوری کرتے ہیں۔ اس کی ایجاد کے شرمناک پہلو سے یکسر بیگانہ ہیں۔دسمبر 1971 ء پاکستان کی تاریخ کا اندوہ ناک و شرمناک دن تھا جب نہ صرف قومی نظریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی دولخت ہوگیا۔ اس صورت حال میں یہی نہیں کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوا اور پاکستان کی بے مثل فوج کے 90 ہزار فوجی بھارت نے قیدی بنالئے بلکہ ایسی مخدوش صورت حال میں مغربی پاکستان کی بقاء بھی سوالیہ نشان بن گئی۔ 
جنگ کے سبب دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی بندش کے ساتھ ساتھ ملکی زراعت و صنعت پر بھی سکوت طاری تھا۔ ایسے حالات میں حکومتیں اناج کے حوالہ سے کفایت شعاری سے کام لیتی ہیں اور راشن بندی کردیتی ہیں۔ چنانچہ تمام خاندانوں کو ان کی ضروریات کے مطابق یا اس سے کچھ کم اناج فراہم کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجاسکے اور ملک کو خانہ جنگی سے بچایا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں لوگوں کو راشن یعنی دال چاول کی فکر نہیں تھی اور نہ جان، مال اور آبرو کی کہ بھارت نے اگر اس حصہ پر بھی قبضہ کرلیا تو کیا ہوگا۔ فکر تھی تو اس بات کی کہ پان کا نشہ کیوں کر پورا کیا جائے؟ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کے بعد پان اور چھالیہ کی آمد بند ہوچکی تھی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے سمندری آمد و رفت کی بندش کے باعث سری لنکا اور دیگر ممالک سے بھی پان اور چھالیہ کی آمد بھی ممکن نہ تھی جب کہ بھارت تو تھا ہی دشمن۔
چنانچہ اس نشہ کو پورا کرنے کے لئے لوگوں نے کھجور کی گٹھلی اور املی کی گٹھلی کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جب کہ پالک کے پتوں، لہسوڑے کے پتوں اور امرود کے پتوں کو پان کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ۔ مختلف گٹھلیوں کے استعمال نے تو نشہ پورا کرنے میں کچھ مدد دی لیکن مختلف پتوں کے استعمال نے مزہ نہ دیا چنانچہ متبادل پتوں کے استعمال کو ترک کر کے محض مختلف گٹھلیوں کے استعمال کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جاری رکھا۔
اب سوال یہ تھا کہ اس نئے آئٹم کو کیا نام دیا جائے کیونکہ یہ پان تو بہرحال نہیں تھا چنانچہ گٹھلیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں اور گٹکوں کے استعمال کے باعث اس کانام گٹکا پڑگیا۔ بعد ازاں جب چھالیہ کی درآمد شروع ہوئی تو قوم اس وقت تک گٹکے کی لت میں پڑچکی تھی اور اب یہ منہ اور گلے کے کینسر کا ایک بڑا ذریعہ بننے کے ساتھ ہی حکومت اور انسانی صحت کے لئے کام کرنے والے اداروں اور افراد کے لئے درد سر بن چکا ہے۔

شیشہ

شیشہ ہے کیا؟ پاکستان میں شیشہ کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ اس میں مختلف پھلوں کے ذائقے کا استعمال ہے۔ اس لئے یہ صحت کے لئے نقصان دہ نہیں لیکن پروفیسر جاوید کہتے ہیں کہ شیشہ ذائقہ دار تمباکو کا نام ہے جو حقہ کے ذریعہ پیا جاتا ہے۔ ان کے بقول ظاہر ہے کہ پھلوں کے ذائقہ سے تو کوئی عادی نہیں ہوگا ، تمباکو کا استعمال ہے اس لئے لوگ عادی ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے خرید کر اسے گھر پر رکھ لیا ہے جہاں روزانہ اس کا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت سے متعلق قانون موجود ہے چونکہ شیشہ میں تمباکو ہوتا ہے اس لئے یہ قرار داد اس قانون کی حمایت کرتی ہے۔

گوند نما اور چپکنے والے مواد

وجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک بڑی بری عادت پائی جاچکی ہے۔ ہر جگہ گھٹیا قسم کے سائل اور پگھلنے والے مادے ناک کے ذریعہ سونگھے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد اس قسم کا نشہ حاصل کرنا ہوتا ہے جو گلا گھٹنے کے مشابہ ہوتاہے۔ یہ مرکبات چونکہ بہت ارزاں ہیں اور ان کا حاصل کرنا بھی بہت آسان ہے اس لئے یہ مغرب و مشرق کے نوجوانوں میں بڑی تیزی سے مقبول ہورہے ہیں۔ یہاں ان میں سے مشہور ترین مرکبوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ پٹرول سے بنائے گئے کاربن ہائیڈوریڈ، خلون ایٹیل کے آسیٹ، طولوین اور کچھ الکحل، ایتھر، کلوروفورم، گیس پاش رومال، گوند اور وارنش کے پگھلے ہوئے مرکبات، لائٹر کی گیس، بعض خوشبو اڑانے والے مرکبات، چربی اور چکنائی کو پگھلانے والے مرکبات وغیرہ۔
ان گوندنما اور چپکنے والے مرکبات کے استعمال کا زیادہ معروف طریقہ یہ ہے کہ ان مذکورہ اشیاء کو کاغذ یا پلاسٹک کی ایک تھیلی میں ڈال لیا جاتا ہے پھر اوپر چڑھتے ہوئے بخارات کو ناک کے ذریعہ کھینچنے کے لئے چہرہ براہ راست تھیلی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ کئی لوگ کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس کو گوند میں گیلا کرلیتے ہیں پھر اسے منہ یا ناک پر رکھ لیتے ہیں پھر ایک معدنی برتن میں پگھلنے والی چیزیں ڈال کر انہیں آگ پر رکھ دیتے ہیں پھر فوراً ان گرم گرم بخارات کو ناک کے ذریعے کھینچتے ہیں، کئی دفعہ اس اڑجانے والے پگھلے ہوئے مواد کو براہ راست منہ میں ڈال لیا جاتا ہے یا اسے کچھ میٹھے شربتوں کے ساتھ پی لیا جاتا ہے۔

الکحل اور اس کے مشروبات

الکحل اگر خالص ہو تو سیال، ہلکی بو والا اور اڑجانے والا ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ جلانے والا اور سخت ہوتا ہے۔ اسے عام طر پر رس دار پھلوں، غلوں اور سبزیوں کو نچوڑ کر ان کی تقطیر اور تخمیر سے تیار کیا جاتا ہے۔الکحل اپنی ترکیب میں مشروبات کے تین مخصوص نمایاں مجموعوں میں شامل ہے۔ یہ تینوں مجموعے، اپنی ساخت میں الکحل کی مقدار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں:


بیئر (Beer) جو اوسطاً 6% الکحل پر مشتمل ہوتی ہے۔


شرابیں جو اوسطاً 12% الکحل پر مشتمل ہوتی ہیںں اور کبھی سخت شرابوں میں یہ نسبت 21% تک جاپہنچتی ہے۔



مشروبات روحیہ (Alcoholic Beverags) جو اوسطاً 40% الکحل پر مشتمل ہوتے ہیں اور کبھی ان میں الکحل کی مقدار اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
الکحل کے مشروبات بلاشبہ اس لائق ہیں کہ انہیں ’’خطرناک منشیات‘‘ کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ یہ قدیم زمانہ سے معروف ہیں اور دنیا کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کی بے شمار اقسام ہیں۔ ان کا تیار کرنا کچھ مشکل نہیں۔ تمام قسم کے غلوں اور پھلوں کو خمیر دے کر اسے تیار کیا جاسکتا ہے۔ مغربی اقوام کے تقریباً 70% لوگ بلاشبہ اپنی عام زندگی میں ان نشہ آور مشروبات کو استعمال کرتے ہیں۔

کاکاؤ

کاکاؤ ایک پودا ہے جو گرم علاقوں میں اگتا ہے۔کاکاؤ کے پودے کی بلندی 8سے10 میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ کافی حد تک چیری کے پودے سے ملتا ہے۔ کاکاؤ (Cacao) کے پتے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ اس کی لکڑی سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ سارا سال پھل دیتا ہے۔ کاکاؤ کے دانے پھلیوں میں ہوتے ہیں پھر یہ زرد یا سرخ رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ ان کے دانوں کو ایک خاص ترتیب سے خشک کیا جاتا ہے۔ خشک ہونے کے بعد ان کا رنگ قہوہ جیسا ہوجاتا ہے۔ دانوں کو کافی کی طرح بودیتے ہیں، کوٹتے اور نرم کرتے ہیں۔ اس پاؤڈر کو دودھ یا ابلتے ہوئے پانی سے ملاکر پیتے ہیں۔ کاکاؤ چاکلیٹ بنانے، کئی دواؤں اور کئی مقوی شربتوں میں استعمال ہوتا ہے۔

متہ

متہ کی کاشت جنوبی امریکہ میں ہوتی ہے جیسے پیراگوئے اور برازیل میں۔ اسی وجہ سے اس کا سائنسی نام برازیلی متہ (Ilex mate brasliensis) اور متہ پارگوانی (Ilex paraguayensis) ہے۔ اس کے پودے کی لمبائی 3سے 6میٹر تک ہوتی ہے۔ اس کے پتے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان پتوں سے بھگویا گیا یا ابالا ہوا چائے کی طرح کا ایک مشروب تیار کیا جاتا ہے اور اسے مخصوص رسوم اور روایات کے ماحول میں پیا جاتا ہے۔ عرب مہاجروں نے متہ کا استعمال کئی عرب ملکوں میں بھی منتقل کردیا ہے جیسے شام میں قلمون کے علاقہ میں۔
متہ اپنی بناوٹ میں کافئین کے علاوہ ٹیوفیلین کی معمولی سی مقدار پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو مرکزی عصبی نظام کو کافئین کی طرح متاثر کرتا ہے اور طبی طور پر پھیپھڑوں میں ہونے والی ایک بیماری جس کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے، کی تکلیف کم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر متہ کی اعلی مقدار استعمال کی جائے تو یہ واضح طور پر مرکزی عصبی نظام کو متاثر کرتی ہے اور دماغ کے خلیوں کو خراب کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس کی کم مقدار قہوہ اور چائے کی طرح چستی آور ہے۔

چائے

چائے کا ایک چھوٹا سا پودا ہے جو مشرق بعید میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان اور چین کی اہم پیداوار ہے۔ چائے کی پتی کی بڑے پیمانہ پر تجارت ہوتی ہے، سب سے زیادہ چائے پینے والے برطانیہ، ہالینڈ اور امریکہ کے باشندے ہیں۔ چینی چوتھی صدی عیسوی سے چائے کے عادی تھے اور اس کے پتوں کے ساتھ چاول، نمک اور سنگترہ کا چھلکا ملاکر خاص قسم کے جام بناتے تھے۔ یہ عادت تبت اور منگولیا کے باشندوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہاں سے روس کو منتقل ہوئی۔ پتی کو بھگو کر یا ابال کرپینے کی عادت پندرہویں صدی میں شروع ہوئی۔
چائے کی دو قسم کی پتیاں ہوتی ہیں۔ سبز پتی اور سیاہ پتی۔ توڑنے کے بعد پتوں کے خمیر دار ہونے کے لحاظ سے ہر پتی دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ چائے کا مشروب عام طور پر بھگونے یا ابالنے سے بنایا جاتا ہے۔چائے اپنی بناوٹ میں تھائین کے مواد پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنی بناوٹ میں کافئین کے مماثل ہے۔ اس کی شرح سبز چائے میں 5فیصد اور کالی چائے میں 3فیصد ہوتی ہے۔ تھائین اپنے فزیالوجیکل خواص میں کافئین کی طرح مگر سیاہ پتی میں تھائین زیادہ نقصان دہ ہے اور اس میں زہریلے مواد پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کہاجاسکتا ہے کہ بدن پر چائے کے بھی وہی اثرات ہیں جو قہوہ کے ہیں۔

قہوہ، کافی

قہوہ کا پودا بہت سے ملکوں میں اگتا ہے جیسے جزیرۃ العرب، حبشہ، سیلون، برازیل اور کئی ایک افریقی ممالک اور اس کانام عربی قہوہ ہے۔ سبز قہوہ کے بھگوئے ہوئے اور نہ بھونے ہوئے بیج بے ذائقہ ہوتے ہیں،قہوہ کو بھوننے یا سینکنے سے ایسے مخصوص عطری مرکبات پیدا ہوتے ہیں جو کافؤل (Cafeol) اور کافؤن (Cafeon) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عرب ممالک میں قہوہ کا استعمال نویں صدی عیسوی سے عام ہوا اور پھر سترہویں صدی میں یورپ کو منتقل ہوا۔ 
شروع شروع میں اسے مقبولیت حاصل نہ ہوئی بلکہ اسے کئی ادیبوں نے اپنے مضامین میں مذاق کا نشانہ بنایا۔ انیسویں صدی کی ابتداء سے قہوہ کا استعمال ہرجگہ ہونے لگا بلکہ لوگ اس پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اور یہیں سے قہوہ کے نشہ سے کئی تکالیف پہنچنے لگیں۔ کئی طبی رسالوں نے یورپی ممالک اور امریکہ میں نمودار ہونے والی ان تکالیف کا ذکر کیا۔1905ء میں ولندیزی اور بلیجیائی سب سے زیادہ کافی استعمال کرتے تھے، ان میں سے ہر فرد اوسطاً نو یا دس کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال میں لاتا تھا۔ پھر جرمن تھے جو سال میں 3کلو گرام قہوہ استعمال کرتے تھے۔ سب سے آخر میں فرانسیسی تھے ان کا ایک آدمی 2کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال کرتا تھا۔ عربی اور اسلامی ممالک میں قہوہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ مہمان نوازی کی علامت اور سخاوت کا نشان ہے۔ یاد رہے کہ ان ملکوں میں چونکہ قہوہ تھوڑی مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس سے یورپی ممالک میں د یکھے جانے والے شدید قسم کے نشئی پیدا نہیں ہوئے۔

سگریٹ میں دس زہر

(1)
نکوٹین:
20ملی گرام فی سگریٹ جو مہلک زہر کتے جیسے جانور کے لئے بھی کافی ہے۔ کتے کو 10فیصد بھی 3,4 منٹ میں ہلاک کرسکتا ہے۔
(2)
کاربن مونو آکسائیڈ:
دھوئیں میں 2 1/2 فیصد یہ خون کے سرخ مادے میں جذب ہوکر سانس کو روکتی ہے اور زیادتی پر موت واقع ہوجاتی ہے۔
(3)
گارسینوجنک:
کینسر پیدا کرنے والے 16 کیمیائی مادوں میں سے ایک جس کے دھوئیں سے جانوروں پر تجزیہ کرنے سے کینسر پیدا کرنا ثابت ہوا ۔
(4)
بھاپ بن کر اڑنے والا مہلک تیزاب۔
(5)
سانائیڈ:
یہ بھی مہلک زہر ہے۔
(6)
سنکھیا:
جو سگریٹ کے دھوئیں میں پایا جاتا ہے۔ اگر کسی جانور کو کھلایا جائے تو وہ سر کے بل لوٹ لوٹ کر دم توڑتا ہے۔
(7)
امونیا:
یہ بھی مضر صحت ہے، دم گھٹنے لگتا ہے، پھیپھڑوں کو جلاکر دائمی تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔
(8)
کولتار:
یہ بھی زہر ہے۔ ایک کلو روزانہ ایک سال تک پینے پر ایک پیالہ کولتار کے مساوی ہے جو مہروں کو جانے والی باریک نالیوں کو مفلوج کردیتے ہیں علاوہ ازیں مہروں کے اندرونی جلد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
(9,10)
فضول اور الکحل:
یہ بھی مہلک زہر ہیں۔
یہ تمام وہ زہریں ہیں جو عام سگریٹ نوش کے جسم میں جذب ہوتی ہیں جو اس کی شاداب اور شگفتہ زندگی کو خشک کردیتی ہیں۔ خوف، وحشت، کمزوری، ذہنی الجھن، کشمکش، انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں جو زندہ رہ کر بھی زندگی کو ترستے ہیں۔ ہر سگریٹ پینے والا یہی کہے گا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ،نقصان ہی نقصا ہے لیکن پھر بھی پئے جائے گا۔ سگریٹ کو دھواں اڑانے سے وقتی طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے۔ 
مگر سگریٹ کا نقصان دائمی ہے۔ جون 1968ء کو امریکی سائنسدانوں نے کتوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بناکر مصنوعی طور پر ان کو پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا کیا گیا تاکہ ’’نکوٹین ‘‘ تمباکو کے زہر کے اثرات کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ امریکی ایسوسی ایشن کانگریس کے بموجب سائنسدانوں نے دس کتوں کا انتخاب کیا۔ کتوں کے انتخاب کی اصل وجہ یہ ہے کہ کتوں کے پھیپھڑے اور عضلات، انسانی پھیپھڑوں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ کتوں کو روزانہ 12 سگریٹ کا باقاعدہ طریقہ سے عادی بنایا گیا۔ عام سگریٹ نوش بھی تقریباً دن میں 12 سگریٹ ہی نوش کرتا ہے۔ تجربہ کے دوران قلب و خون کے امراض میں مبتلا ہوکر اس میں سے پانچ کتے مرگئے اور بقیہ تمام کتوں کے پھیپھڑے متاثر ہوگئے۔ (1؂) (ماخوذ از رہنمائے دکن۔ جون 1968ء)

سگریٹ

سگریٹ جنوبی امریکی پیداوار جس کو ہسپانوی باشندہ کولمبس نے 1492ء میں معلوم کیا۔ 1556ء میں امریکی سرخ باشندوں سے سیکھا۔ 1565ء میں امریکہ سے برطانیہ میں پہنچا۔ پہلا امریکی سگار جنوبی ماریکہ میں 1750ء کو وجود میں آیا اور کارخانہ سگار 1788ء میں قائم ہوا۔ دوسری جنگ عظیم میں 25 کروڑ سگریٹ روزانہ برطانیہ میں تیار ہوتے تھے اب پوری دنیا میں 150 ارب سگریٹ روزانہ تیار ہوتے ہیں۔ دل کے سو مریضوں میں سے 99 سگریٹ نوش ہوتے ہیں۔ دل کے درد اور سگریٹ نوشی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

Thursday, May 17, 2012

تمباکو

تمباکو امریکی الاصل ہے، اسے ایک اسپینی مبلغ 1518ء میں اسپین لے گیا۔ پرتگال میں فرانس کے سفیر جان نیکوٹ 1560ء میں اس سے واقف ہوئے اور اپنے گھر کے باغیچہ میں اس کی کاشت کی۔ سفیر موصوف نے تمباکو کے پتوں کو شقیقہ کی بیماری کا علاج کرنے کے لئے استعمال کیا پھر انہوں نے اس پودا کا تعارف اپنی ملکہ کیتھرائن سے کروایا جو خود اس بیماری میں مبتلا تھیں، وہ بھی اس بیماری سے شفا یاب ہوئیں۔ اس وقت تمباکو کو پانی میں گھول کر منہ کے ذریعہ سے یا جائے براز میں انجکشن کی صورت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس عجیب و غریب خیال سے بہت سی ہلاکتیں ہوئیں لیکن اس وقت کوئی ان کی تشریح نہیں کرسکتا تھا۔ سترہویں صدی کے اوائل میں یورپ میں پہلی مرتبہ پائپ ظاہر ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی تمباکو نوشی کا رواج شروع ہوگیا۔ اس کی تجارت کرنے والے مالا مال ہوگئے۔ 1811ء میں نپولین نے تمباکو کو اکٹھا کرنے اور اس کی تجارت کے لئے ایک مخصوص ادارہ قائم کیا۔ یوں تمباکو نوشی کو فروغ ملا۔
 تمباکو کا شمار SOLANACEAE کے پودوں میں ہوتا ہے۔ اس کی کاشت کے علاقوں کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے اس کی مختلف انواع ہیں۔ تمباکو کے پودوں کو توڑ لیا جاتا ہے پھر خشک کرلیا جاتا ہے اور انہیں خمیرہ کیا جاتا ہے پھر سگریٹ بنانے کے لئے یاپائپ وغیرہ میں استعمال کی غرض سے مطلوبہ شکلوں میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ تمباکو میں مختلف عطری خوشبوئیں ملائی جاتی ہیں۔ ان میں مخصوص مواد بھی ملایا جاتا ہے ۔ کئی ملکوں میں افیون یا حشیش ملائی جاتی ہے۔ تمباکو جس فعال مواد پر مشتمل ہوتا ہے وہ نیکوٹین (Nicotine) ہے۔ تمباکو کی مختلف اقسام میں نیکوٹین کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً فرانسیسی تمباکو میں ایک سے دس فیصد تک، الجزائر میں اسے 4فیصد تک، مشرقی تمباکو بالعموم نکوٹین سے خالی ہوتا ہے اور اس میں بمشکل پانچ فیصد نکوٹین ہوتی ہے۔ نکوٹین کی مقدار میں کمی بیشی میں تمباکو کو خمیرا کرنے کا اہم کردار ادا ہوتا ہے۔
نکوٹین ایک خطرناک زہریلا مواد ہے جو اپنی کارکردگی میں سیانیڈریک ایسڈ سے ملتا جلتا ہے اور اس کی 2سے 16سینٹی گرام مقدار انسان کی ہلاکت کے لئے کافی ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ نکوٹین سے پیدا ہونے والا نقصان جلنے سے پیدا ہونے والے دیگر مرکبات سے جنم لینے والے نقصان سے بہت کم ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ نکوٹین سے بنیادی درجہ کا پیدا ہونے والا اثر زیادہ نقصان دہ ہے۔

امفیٹامائن

آج سے تقریباً پچاس سال پہلے امفیٹا مائن کو دوا سازی میں استعمال کیا گیا۔ امفیٹا مائن اور اس کی متعلقہ ادویات مرکزی اعصابی نظام کے لئے محرک اور ہیجان خیز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں امفیٹا مائن کو ہزاروں لوگ بالخصوص طلباء ، ٹرک ڈرائیور اور وکلاء استعمال کرتے ہیں۔ یہ گولیاں میتھوڈین، ڈیساکسن، ڈیکٹورین کے نام سے بازاروں میں سستے داموں دستیاب ہیں۔ یہ طبیعت میں جوش، امنگ اور تیزی پیدا کرتی ہیں، کھانے اور سونے کی خواہش مٹادیتی ہیں۔ زیادہ خوراکوں سے مریض شکی مزاج، غصیلا اور تندخو ہوجاتا ہے، پژمردگی، جھلاہٹ اور مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ وہ فضول باتیں کرتا رہتا ہے۔ یہ دوا ہیروئن سے سوگنا زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ جسم سے قوت مدافعت بتدریج ختم ہوجاتی ہے۔ حافظہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مہینوں صرف ہوتے ہیں۔
امفیٹامائن کے مرکبات کو دوسری عالمگیر جنگ کے اختتام میں برتا گیا تاکہ فوجیوں میں جسمانی اور عقلی مشقت کو برداشت کرنے اور بیدار رہنے کی قوت کو بڑھایا جاسکے۔ بہت سی عورتیں ان مرکبات کو وزن کی زیادتی کا علاج کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں تاکہ ان کا جسم دبلا پتلا اور سمارٹ ہو کیونکہ ان مرکبات کے کھانے کے بعد بھوک نہیں لگتی۔

قات

قات کا لفظ بڑی بڑی عربی لغات میں نہیں ملا۔ خیال ہے کہ قات حبشی لفظ ہے جو حبشہ سے یمن پہنچا۔ یمن میں اس کی وسیع پیمانہ پر کاشت ہوتی ہے۔ یہی اس کے نشہ آور پتوں کو بہت زیادہ چباتے ہیں۔ قات کے پھلوں کو عمل تقطیر سے گزار کر الکحل مشروب بنایا جاتا ہے جو اعصاب پر شدید اثر ڈالتا ہے۔
قات ایک چھوٹا سا پودا ہے۔ یہ جزیرۃ العرب اور مشرقی افریقہ میں اگتا ہے۔ یہ چائے کے پودے سے ایک حد تک ملتا جلتا ہے۔ اس کے پتے نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اس کی پیداوار کے لئے مناسب زمین مرطوب، معتدل الحرارت اور 1500 میٹر کی بلندی تک ہونی چاہئےآج قات نے جنوبی جزیرہ عرب، صومالیہ، کینیا اور افغانستان میں شدید مصیبت کی صورت اختیار کرلی ہے۔قات جراثیم دار ار لیس دار مواد پر، پھولنے والے مواد پر اور اسکورینک یعنی وٹامن سی کے ایسڈ پر نیز کولین اور مانیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیز قات زردی مائل، رس دار عطروں پر مشتمل ہوتا ہے جن کی بو اور ذائقہ دونوں قابل قبول ہوتے ہیں۔

کوکائین

کوکا، فرانسیسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ایک پودا ہے جنوبی امریکہ میں کاشت ہوتا ہے۔ اس کی بلندی تین میٹر تک ہوتی ہے۔ اس کے پتے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ انہیں توڑنے کے بعد خشک کیا جاتا ہے اور پھر طب میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے کوکائین نکالی جاتی ہے۔ یہ ٹھوس مادہ ہوتی ہے، اس کا رنگ قدرے زردی مائل ہوتا ہے، بے بو اور تلخ مزہ والی، گرم پانی میں حل ہوجاتی ہے۔ طب میں زیرِ جلد انجکشن کی صورت میں مستعمل رہی ہے۔ یہ مقامی بے حسی پیدا کرتی ہے۔ کو کائین کے نشئی بطور انجکشن یا ناک کے ذریعہ سانس لے کر اسے بدن میں داخل کرتے ہیں۔ اس سے ایک مخصوص مستی اور مخموری پیدا ہوتی ہے۔ اس کا ہمیشگی استعمال نفسیاتی اور عصبی اختلال کا سبب بنتا ہے۔
مونٹیغاز ا نے 1850 میں بتایا کہ پیرو کے باشندے کوکا کے پتے چباتے ہیں تاکہ بھوک ، پیاس اور تھکاوٹ کا مقابلہ کرسکیں۔ ان میں سے ہر ایک اوسطاً 50 سے 500تک یومیہ پتے چباجاتا ہے۔ 1856 ء میں امریکی سائنسدان سموئیل پرسی نے کوکا کے پتے چبانے سے منہ میں حاصل ہونے والے نشہ کا ذکر کیا۔ 1857ء اور 1859ء میں ریزی اور نائمن نے ان پتوں سے فعال مواد نکالا اس مواد کو کوکائین کا نام دیا گیا پھر 1870ء اور 1880کے درمیان اسے ایک ممتاز مقامی نشہ آور دوا کے طور پر طبی دواؤں کے زمرہ میں شامل کیا گیا۔
کوکائین کلوریڈ کی شکل میں فروخت کی جاتی ہے۔ یہ ایک جلد حل ہونے والے نمک کی صورت میں ہوتی ہے جس میں زہریلے پن کی ایک بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اگر اس کی 0.50 گرام مقدار منہ کے ذریعہ سے تناول کی جائے تو یقیناًموت واقع ہوجاتی ہے۔

حشیش اور قنب ہندی

قنب ایک پودا ہے جو پہلے وسطی ایشیا میں پیدا ہوا اور بعد میں دیگر ملکوں میں پھیل گیا۔ کچھ ماہرین نباتات اور بالخصوص سائنسدان بوکیہ کی رائے کے مطابق قنبکی صرف ایک ہی قسم ہے البتہ اس پودے کی شکل مختلف ملکوں اور بلندیوں کے لحاظ سے بڑی آسانی اورجلدی سے بدل جاتی ہے۔ قنب یورپ میں اگتا ہے۔ دو میٹر تک اس کی بلندی ہوتی ہے، اسے قنب کی چھال حاصل کرنے کے لئے کاشت کیاجاتا ہے تاکہ اسے رسیوں، بوریوں وغیرہ اور بنائی کی صنعت میں استعمال کیا جائے نیز اس کے روغنی بیجوں سے استفادہ کی خاطر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
بعض علاقوں جیسے ایشیاء، ہندوستان، ایران، یونان اور شمالی افریقہ کے بالائی خطوں میں یہ پودا خشکی اور ملک کی آب و ہوا کے مطابق بڑھتا ہے۔ اس کا قد پست ہوتا ہے اور بنائی کے مطلب کے لئے اس کی قدر و قیمت بہت کم ہوتی ہے۔
مادہ ، پودے کے شگوفوں کی ڈوڈیوں کے اردگرد سے ایک لیس دار مواد نکلتا ہے جو پودے کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ مواد فعال فزیا لوجیکل خواص سے بھرپور ہوتاہے۔ اس مختلف قسم کے پودے کو قنب ہندی کہا جاتا ہے اور یہی وہ پودا ہے جو نشہ آور مواد فراہم کرتا ہے ، اس مواد کا نام حشیش ہے۔
قدیم زمانہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اس لیس دار مادہ سے ایک مخصوص نشہ کا کام لیا جاتا ہے۔ ہندو جوگیوں نے اس مواد سے ’’سحری مشروبات‘‘ تیار کئے تھے جنہیں وہ اپنی مذہبی تقریبات میں لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس پودے کو عام لوگوں نے بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور یہ ہندوستان سے مشرق وسطی ایران، ترکی، مصر وغیرہ کی طرف منتقل ہوگیا اور پھر وہاں سے شمالی افریقہ، اسپین، مرکزی اور شمالی یورپ اور پھر آخر امریکہ پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی پاشا وہ واحد شخص ہے جس نے اس پودے کو مصر میں پہنچایا تاکہ اس کے ریشوں کو بنائی کے لئے استعمال کیا جائے۔

مصنوعی افیونی منشیات

نشہ و کیف کی تلاش میں لوگوں کی دلچسپی افیون اور اس پر مشتمل کلویڈوں تک محدود نہیں رہی بلکہ آگے بڑھ کر انہوں نے مختلف کیمیاوی مصادر سے جدید مصنوعی مرکبات تیار کرلئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس دلچسپی میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے۔ جب سے دوا سازی کی صنعت نے جدیدمرکبات تیار کرنے شروع کردئیے ہیں یعنی پتھر کے کوئلہ کے تارکول اور پٹرولیم کے مشتقات کے باقی ماندہ اجزاء سے اب ایسے مرکبات تیار کرلیناممکن ہوچکا ہے جن کے متداول افیونوں جیسے اثرات ہوں۔ ان مرکبات کی تعداد میں اب تو روز بروز اضافہ ہوتارہے گا۔
ان مرکبات میں سے ایک کلوروہیٹررٹ پیتھڈین ہے جو کہ مختلف تجارتی ناموں سے فروخت کی جاتی ہے جیسے ڈولوزال ۔ اسے تشنج کے توڑ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر اس میں درد کو سکون بخشنے والے خواص پائے جاتے ہیں۔یہ مارفین کی طرح ہے مگر مارفین کی سی کارکردگی اور تاثیر حاصل کرنے کے لئے اس کی مقدار میں 5سے 10 خوراک کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ ڈیروبورنامی سائنسدان نے سب سے پہلے اس مرکب کا مطالعہ کیااور اس نے دیکھا کہ یہ اپنے نشہ کے لحاظ سے دیگر افیونات کی طرح ہے۔ اس کے استعمال سے لاغری ہوجاتی ہے جو جلد کے خشک ہوجانے تک رہتی ہے۔ اس کے انجکشن سے نہ صرف نشہ کی حالت طاری ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ عارضی ہیجانی کیفیت بھی پیدا ہوجاتی ہے جو ہر انجکشن کے ساتھ ازسر نوپیدا ہوتی رہتی ہے۔
اسی طرح مورفینان ، میتھاڈون اور آکسی کوڈون جیسے مرکبات بھی مارفین کے نشہ کی طرح سرشاری کا سبب بنتے ہیں مگر انہیں دواؤں کی فہرست نمبر 2 میں رکھا گیا ہے جب کہ 1948 ء سے یہ عام پھیل چکے ہیں۔ اور یہی حال پالفیوم کے مرکب کا ہے جومارفین کی طرح مسکن کارکردگی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس کی یہ کارکردگی مارفین سے بھی بڑھ کر ہے۔ انجکشن کے بعد یہ شکستگی اور کمزوری کی شدیدی صورت کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ناقابل برداشت دردوں کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دواؤں کی عالمی مارکیٹ میں موجود اکثر دوائیں مکمل طور پرمحفوظ اور سالم ہوتی ہیں اور نشہ کا سبب نہیں بنتیں۔ یہاں یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ مختلف ممالک میں ہونے والے سائنسی تجربات اور اعداد و شمار سے اس دعویٰ کی تکذیب ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں ایسے خطرناک مرکبات ہیں جو مریض کو نشہ کا عادی بنادیتے ہیں اور مریض ان کااس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ وہ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

کوڈین

افیون میں کوڈئین کی بہت معمولی مقدار پائی جاتی ہے مگر دور حاضر کی صنعت نے اسے مارفین کے درجہ تک پہنچادیا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس، ہندوستان سے برآمد شدہ ایک سوٹن خام افیون کو کوڈئین کے استعمال میں صرف کرتا ہے۔ یہ باربے سائنسدان تھا جس نے سب سے پہلے 1834ء میں اپنے خانگی تجربات میں اس حقیقت کو معلوم کرلیا کہ اگر 65 اور 130 ملی گرام کے درمیان کوڈئین کی مقدار استعمال کی جائے تو اس سے خواب آور اثرات پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ پاگل پن اور جنون کے اثرات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ زکام اور تنفس کی بیماریوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کوڈئین کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ بعض دو۱ساز اور کیمیاوی صنعتیں اب اس بات پر توجہ دے رہی ہیں کہ خشخاش پیدا کرنے والے علاقوں میں ہی کوڈئین تیار کرلی جائے تاکہ مخصوص گروہ افیون کو اسمگل نہ کرلیں۔ جدید تجربات نے واضح کردیا ہے کہ خشخاش کی ایک قسم جسے پتلے پتوں والی خشخاش کہا جاتا ہے، میں ٹیبائین کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جو نشہ کاسبب نہیں بنتی۔ لہذا آج کل انڈسٹری اس کلویڈ سے کوڈئین تیار کررہی ہے۔
پھیپھڑوں کے ورم اور تنفس کی نالیوں کے علاج میں کوڈئین زیادہ تر پاؤڈر یا سیرپ کی صورت میں نیز انجکشن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوڈئین کا نشہ اپنی مدت اور خطرہ کے لحاظ سے مارفین یا ہیروئن کے نشہ سے کم خطرناک ہے تاہم اس سے اس شدید خطرہ میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی جس میں نشہ باز مبتلا ہوتے ہیں۔

ہیروئن

مارفین ایک طویل عرصہ تک دوا سازی میں بنیادی مرکب کے طور پر استعمال ہوتی رہی جو افیونی سرشاری کا سب سے بڑا مصدر ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ ایک اہم صنعتی پیداوار نے لے لی جس کا نام ہیروئن ہے۔ یوں مارفین کی صنعتی مشتقات میں سرفہرست ہیروئن ہے۔ ہیروئن کے استعمال کے نتیجہ میں غیر معمولی شجاعت اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے اس کا نام یونان کی ایک بہادر خاتون کے نام پر رکھا گیا جو شریفانہ جذبات سے متصف تھی ۔
یہ تو معلوم ہوگیا کہ ہیروئن ایک مارفینی مشتق ہے جسے 1898ء میں دواؤں میں شامل کیا گیا، اسے ایک نمکین مرکب کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، اس میں جلد حل ہونے کی خصوصیت پائی جاتی ہے اور یہ افیونی سرشاری کاسبب بننے والی دواؤں میں سرفہرست ہے۔
ہیروئن ایک سفید رنگ کا ملائم پاؤڈر ہے اگر ہندوستان سے آئے اور اس کا رنگ گندمی ہوتا ہے جب یہ میکسیکو سے آئے۔ طریقہ فروخت یا طریقہ استعمال کے مختلف ہونے کی وجہ سے اس کی قیمتیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ہیروئن کچھ تو خالص بیچی جاتی ہے، کچھ میں شوگر ملک یا عام چینی یا اسپرین کا پاؤڈر ملایا جاتا ہے۔ بیسن بھی ملایا جاتا ہے، کونین بھی ملائی جاتی ہے ، بیکار بونیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش کی جاتی ہے۔ ملاوٹ والی یہ ہیروئن اپنے زہریلے اثرات کم کردیتی ہے۔
اہل مغرب نے نشہ اور کیف کی دنیا میں ہیروئن کو ایک نئی فتح قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے مارفین کے حصول اور اس کے استعمال کے لئے نشہ باز کو میڈیکل سرٹیفکیٹوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنی پڑتی تھی اور بار بار انجکشن لگوانے کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی مگر ہیروئن نے نشہ بازوں کی ان تمام کلفتوں کو ختم کردیا ہے۔ ہیروئن اسمگلنگ کی منڈی میں وسیع پیمانہ پر پھیل چکی ہے اور اس کا کھانا یا استعمال بہت آسان ہے۔
ہیروئن پہلے پہل نوجوانوں کو مفت دی جاتی ہے تاکہ انہیں اس کی لت پڑجائے اور وہ بعد میں خریدنے پر مجبور ہوجائیں نیز ہیروئن کی خفیہ فروخت میں ، ان سے کام لیا جائے۔

مارفین

نپولین کی فوج میں شامل ایک کیمسٹر سیغان وہ پہلا شخص ہے جس نے افیون میں مارفین کا پتہ چلایا پھر انیسویں صدی کے وسط میں ووڈ نے اسے جلد میں بطور انجکشن لگایا اور یہیں سے اسے دوائی کے مقصد سے ہٹا کر نشہ آور مرکب میں تبدیل کرنے کا دروازہ کھل گیا۔1875ء میں جرمنی میں سب سے پہلے اس نشہ کے حملوں کو دیکھا گیا پھر تو انیسویں صدی کے اختتام سے اس متعدی مرض نے پھیلنا شروع کردیا چونکہ اس سلسلہ میں سخت قو۱نین کا فقدان تھا لہذا اس متعدی مرض کے پھیلنے میں بڑی مدد ملی۔ مارفین کے نشیؤں کے لئے سرکاری قانون منظور کروانے میں ڈاکٹروں، کیمسٹوں، دانتوں کے ڈاکٹروں اور ان کے معاونین نے اہم کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ وبا قوم کے ہر طبقہ میں پھیل گئی، ان کلبوں اور محفلوں میں عام ہوگئی جن میں نشہ کے بارے میں ادبی داستانیں پڑھی جاتی تھیں۔ اس ادبی روایت نے منشیات کے فروغ میں اہم حصہ لیا چنانچہ لوگوں نے اس متعدی مرض کا نام ’’ادبی بیماری‘‘ یا ’’کتابی بیماری‘‘ رکھا۔

افیون اور خشخاش

افیون  کو خشخاش کے پودوں کی جڑوں سے لیا جاتا ہے۔ پہلے یہ مابین النہرین فارس، مصر اور وسطی ایشیاء کے علاقوں میں معروف تھی۔ بعد میں ہندوستان اور چین میں پھیلی۔ مغرب میں یہ پندرھویں صدی میں متعارف ہوئی اور وہ بھی سب سے پہلے انگلستان میں کیونکہ ہندوستا ن کے ساتھ اس کے تعلقات تھے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں لندن اور نارفوک کے شہروں میں افیون کے دانے پنساریوں کی دکانوں پر کھلے عام فروخت ہوتے تھے
خشخاش ایشیائی ملکوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ پودے کی اونچائی تقریبا ایک میٹرتک پہنچتی ہے۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں جب پھول آنے شروع ہوتے ہیں تو کسان پودے کے ڈوڈوں کو چھریوں سے بار بار اور تیز تیز ضربیں لگاتے ہیں تو اس سے لیس دار دودھ نما مادہ بہہ پڑتا ہے، اسے ڈوڈوں پر سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر اسے رگڑ کر اکٹھا کرلیا جاتا ہے اور خام افیون کا ایک بلاک سا بنا لیا جاتا ہے۔اس تھکا دینے والی محنت کے مقابلہ میں کسان کو کوئی خاص منفعت نہیں ہوتی۔ ایک ایکڑ زمین پربوئی گئی افیون سے سات کلو گرام افیون حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستان خام افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1985ء میں بھی ہندوستان کی سرکاری پیداوار 751ٹن تھی۔ دوسرے نمبر پر ترکی تھا جس کی پیدا وار 122 ٹن تھی اور پھر روس 116 ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ ان کے مقابلہ میں دنیا کے دیگر ممالک میں افیون کی پیداوار سرکاری حساب سے نسبتاً بہت ہی معمولی ہے۔

عربی میں شراب کے قدیم و معروف نام

عربی میں شراب کے قدیم و معروف نام:
دور حاضر میں شراب نے اتنی ترقی کی ہے کہ اگر اس کے قبائل و افراد کے نام لکھنے لگیں تو سینکڑوں سے تجاوز کرجائیں لیکن مرور دھور میں جو اس کے معروف نام ملتے ہیں۔ وہ بقرار زیرنوک قلم سے قرطاس پر منتقل کئے جاتے ہیں۔
(1)
ام الاوثان:
گناہوں کی ماں۔
(2)
ام الدھر:
مکروہات و ناپسندیدگی کی ماں۔ زمانہ کی سخت۔
(3)
ام الزئیق:
حماقتوں اور تنگی کی ماں۔
(4)
ام الذنبیق:
مدہوش کرنے والی۔
(5)
ام عبا:
چہرہ دمکانے والی۔
(6)
ام الخبائث:
نجاستوں اور ناپاکیوں کی ماں۔
(7)
ام لیلی:
سیاہ رات، رات تاریک کرنے والی۔
(8)
ام النشوۃ:
بدمست و متعفن کرنے والی۔
(9)
ام الافراح:
خوشی کے بعد غمگیں کرنے والی۔
(10)
ام شملہ:
مکمل ڈھانک دینے والی۔
(11)
بنت الخابیۃ:
چھپا دینے والے کی بیٹی۔
(12)
بنت الدنان:
ذلت کے قریب کرنے والی۔
(13)
بنت العنقود:
کچے انگور کے خوشات سے کشید کی ہوئی شراب۔
(14)
بنت الکرم:
انگور کی بیٹی، انگوری شراب۔
(15)
مرز:
جوار سے تیار کی ہوئی شراب۔
(16)
بتع:
شہد سے بنائی جانے والی شراب۔
(17)
بسر:
کچی کھجوروں سے بنائی گئی شراب۔
(18)
بیب:
منقی سے تیار کی ہوئی شراب۔
(19)
القندید:
زعفران سے بنائی ہوئی خوشبو دار شراب۔ (اسماء الخمر و العصیر از علامہ محمد الحسن بن رمضان النحویؒ )
شراب کا موجد شاہ ایران جمشیدبتایا گیا ہے۔ خمر لغت میں انگور سے نچوڑی ہوئی شراب کو کہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے زندانی مصاحبوں میں سے ایک نے کہا:
انی ارانی اعصر خمرا۔
’’میں نے خواب میں د یکھا کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں‘‘۔ (1؂)(سورہ یوسف)
فارسی میں خمر کو مے کہتے ہیں۔ مے اصل میں غت دری میں زہر کو کہتے ہیں۔ جمشید شاہ ایران انگور کھانے کا عادی تھا۔ ایک دفعہ انگور آئے رکھ دئیے اور انہیں کھانا بھول گئے۔ ہفتوں کے بعد جب یاد آئے، منگا کر دیکھا تو سڑ گئے تھے۔ جمشید نے کہا یہ مے یعنی زہر بن گئے ہیں۔ ان کو زمین میں دبا دو۔ حکم ملتے ہی برتن کے سمیت زمین میں دبادئیے گئے۔ ایک لونڈی کو درد شقیقہ ہوا کرتا تھا۔ اسے درد کی تکلیف ہوئی تو اس نے تنگ آکر خود کشی کا ارادہ کیا۔ ا س نے جاکر دفن کئے ہوئے اس مے کو نکال لیا۔ جو سڑے ہوئے انگوروں کا عرق اس نے خود دبایا تھا۔ اس عرق کووہ پی گئی جس سے اسے نشہ ہوگیا اور وہ گانے بجانے لگی۔ 
اس تغیر حالت پر استعجاب کیا گیا جب لونڈی کا نشہ اتر گیا تب اس سے پوچھا گیا تو اس نے مے کا قصہ سنادیا پھر شاہ کج کلاہ بھی اس پر جھک پڑے اور اسی طرح انگوروں سے شراب یعنی مے کشید کی جانے لگی اور اس کے ودر چلنے لگے اور بادشاہ سلامت دنیا میں شارب خوری کے موجد بنے، جام جم بھی اسی لئے مشہور و معروف ہوئی۔ جام جم اس ساغر کو کہتے ہیں جس پر جمشید شاہ ایران کے دور میں سات خط کھینچیگئے تھے۔ اول درجہ کا شراب خور اس کو سمجھا جاتا تھا جو سات خط تک خالص شراب پی جاتا تھا۔ (ملاحظہ الجمال و الکمال ص:27)
(نوٹ):
شراب کی کوئی انواع و اقسام ہیں۔ اس لئے جمشید کو صرف ایک قسم کی شراب کا وہ بھی صرف ایک علاقہ میں موجد مانا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے لوگوں میں شراب کا رواج تھا۔ انجیل میں اس کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے آتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زندانی دور میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شمسی کیلنڈر، نوروز، شراب، اسلحہ، ریشمی کپڑا اور بہت سے دوسرے علوم و فنون کا موجد جمشید ہی خیال کیا جاتا ہے۔ کیا خوب کہا گیا ہے:
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

شراب

شراب کس چیز سے بنائی جاتی ہے ۔امیر با توقیر حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں 
’’ شراب حرام ہوچکی ہے اور وہ پانچ چیزوں سے بنتی ہے۔ العنب، انگور سے۔ والتمر، کھجور سے۔ گیہوں سے۔ و العسل، شہد سے۔ والشعیر، جو سے‘‘۔ (مشکوۃ ص:317)
یاد رہے کہ شہد سے بنائی جانے والی شراب کو بتع کہتے ہیں۔ یمن کے لوگ زیادہ تر جوار سے تیار کردہ شراب پیا کرتے تھے جسے مرد کہتے ہیں۔ نیز زبیب یعنی منقی اور بسر یعنی کچی کھجور سے بھی شراب بنائی جاتی تھی اور اب بھی بنائی جاتی ہے۔ اب تو ببول، کیکر کے چھلکوں وغیرہ سے آگے بڑھ کر بہت سی چیزوں سے ام الخبائث بنائی جارہی ہے۔

منشیات کا تاریخی پس منظر

قدم زمانہ سے لوگ ’’سحری نباتات‘‘ کے خواص سے واقف ہیں۔ قدیم مصریوں نے خشخاش کی کاشت کی اور اس سے آتش عشق کو بھڑکانے والے خواب آور، پرسکون اور دردوں کے لئے مسکن مشروبات بنائے۔ اسی طرح قدیم ادوار میں قنب الہندی ہندوستان کے میدانوں میں کاشت کی جاتی تھی جس سے حشیش تیار کی جاتی، اسے مذہبی تقریبات میں شخصیات کی اثر پذیری کے لئے استعمال کیا جاتا۔ ان بوٹیوں اور ان سے تیار کردہ مشروبات کا چلن مشرق میں تو عام رہا مگر مشرق سے مغرب کی طرف ان کی منتقلی کی رفتار بہت سست رہی۔
اگر ہم دواؤں کی فہرست میں موجود چند ایک مرکبات جیسے اوڈانوم جس کا استعمال پندرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوا، کو مستثنی کردیں تو حشیش اور افیون کا مغرب میں عملی استعمال انیسویں صدی میں جاکر ہوا۔ زیادہ ترلوگ ادبی اور افسانوی لٹریچر کے ذریعہ ان منشیات سے متعارف ہوئے جیسے بوڈلیر کی کتاب یعنی خوابوں کی جنت۔ اس ادبی واقفیت کے بعد طبی اور فزیالوجی سطح پر دلچسپی شروع ہوئی۔ 1840 ء میں ایک سائنسدان مورو نے ایک اہم تحقیق شائع کی جس میں حشیش کے استعمال سے پیدا ہونے والی عقلی بے چینی اور فریب نظر و خیال کا ذکر تھا۔ بعد ازاں سائنسی تحقیق و مطالعہ نے وسعت اختیار کرلی اور نشہ سے جنم لینے والی دشواریوں اور تکلیفوں پر تحقیق کی گئی۔
دوا سازی اور کیمسٹری کے میدان میں بے پناہ صنعتی ترقی ہوئی۔ افیون کے مرکبات جیسے مارفین، کوڈئین، ہیروئن اور پھر کوکائین وغیرہ عالمی منڈیوں میں بڑی مقدار میں پہنچ گئے تو اس کے ساتھ ہی طبی تنبیہ یعنی میڈیکل وارننگ بھی شروع ہوگئی۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسمگلروں نے نشہ آور مرکبات پر توجہ دی۔ مارفین، کوکائین، ایتھر اور ہیروئن کے استعمال کے نتیجہ میں اموات ہوئیں تو حکومتیں اس اہم معاشرتی خطرہ کا سد باب کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اس وقت سے منشیات کا مسئلہ معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ پہلے ملکی سطح پر، پھر بین الاقوامی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے قوانین بنائے گئے اورکئی تنظیمیں وجود میں آئیں تاکہ نشہ بازی اور اس کے سد باب کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک عالمی تنظیم ، بین الاقوامی تنظیم برائے انسداد افیون و دیگر مضرادویات بنائی گئی جو بعد میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے انسداد منشیات میں تبدیل ہوگئی۔
جس طرح منشیات کے استعمال کی وبا عام ہورہی ہے، کیمسٹری اور دواسازی کی صنعت میں ترقی ہورہی ہے۔ اسی کے مطابق قانونی اور حفاظتی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ اب تو ہر روز ایک نئی دوا بازار میں آرہی ہے جو نشہ آور ادویہ کے خواص اپنے دامن میں لئے ہوتی ہے اور جس کا زیادہ عرصہ تک استعمال نشہ کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دواء کا محتاج بنادیتا ہے۔
منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس میں ہمارے لئے صاف اشارہ ہے کہ یہ مہلک مواد ہماری زندگیوں کے لئے کس قدر تباہ کن ہے اور اس کا روزانہ کا استعمال بے چارگی، لاچاری، مفلسی اور محتاجی تک لے جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نہایت ہی خطرناک نفسیاتی اور جسمانی عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں سے ہم نشہ آور مشروبات (شرابوں) تمباکو، قہوہ اور چائے کا ذکر کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں معتدل انداز سے استعمال کیا جائے تو یہ خطرناک نہیں ہیں حالانکہ فی الحقیقت یہ بہت خطرناک ہیں اور معاشرے کے وجود کو اس طرح کھوکھلا کردیتے ہیں جیسے لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے کو کمزور اور تباہ کردیتے ہیں۔ لندن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیاتی امراض کے صدر کہتے ہیں:
’’الکحل وہ واحد سستا زہر ہے جو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے اور ہر اس شخص کو بڑی آسانی سے دستیاب ہے جو اپنے مسائل سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا ہر مضطرب شخصیت کا انسان اسے بکثرت استعمال کررہا ہے اور نتیجۃً مزید پریشانی اور بیماری کا شکار بن رہا ہے۔ الکحل کا ایک گھونٹ زہرناکی کا سبب بنتا ہے اور اس سے یا تو ہیجان پیدا ہوتا ہے یا ذہنی غیر حاضری۔ باقاعدہ شراب نوشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے بالکل ناکارہ ہوجاتی ہے اور ایک قسم کے جنون کا شکار ہوجاتی ہے‘‘۔ 

منشیات کی حقیقت

انسان نے سکون اور لذت حاصل کرنے اور درد و تکلیف سے نجات پانے کے لئے بہت سی مخصوص اوصاف والی جڑی بوٹیوں کو استعمال کیا۔ ان جڑی بوٹیوں میں سے کئی تو لاعلاج امراض سے شفابخشتی ہیں اور ان میں سے کئی ایک زہر قاتل ہیں۔ نباتات کی ان دو صفتوں کے مابین وہی متضاد تعلق ہے جو دوا اور زہر، حقیقت اور خیال، عمل اور فکر اور آزادی و غلامی کے مابین ہے۔ لہذا دوا کو شفا کے لئے استعمال کرنے میں اور اسے تسکین و لذت یابی کے لئے کھانے میں بہت فر ق ہے۔ پہلی صورت میں دوا کی کچھ مقدار، مقرر اوقات اور مقرر صورت میں لی جاتی ہے جب کہ دوسری صورت میں اس کی کوئی مقدار متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال کی حرص و خواہش دن بدن برابر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور نشہ باز بغیر ضرورت کے دوا استعمال کرتا رہتا ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ دوا وہ قدرتی یا مصنوعی مرکب ہے، جو علاج اور شفاء کے حصول کی خاطر مناسب مقدار میں کھائی جاتی ہے جب کہ منشیات ایک ایسا قدرتی یا مصنوعی مادہ ہے جو مخصوص فزیالوجیکل خواص کا حامل ہے۔ بالفاظ دیگر منشیات اصل میں دوا بنانے کا اولین خام مواد ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اور غلط استعمال کی وجہ سے وہ ایک الگ نوعیت سے معروف ہوگیا ہے۔

Wednesday, May 16, 2012

health is GOD gift- in URDU

reallly i know that healt is GOD gift, this is my opinion that u read the article which in published in the following link
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=21100