پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے شرمناک لمحات کو بھلادینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہذا وہ لوگ جنہوں نے گٹکا ایجاد ہوتے دیکھا یا وہ لوگ جو گٹکے سے محض اپنے نشہ کی لت پوری کرتے ہیں۔ اس کی ایجاد کے شرمناک پہلو سے یکسر بیگانہ ہیں۔دسمبر 1971 ء پاکستان کی تاریخ کا اندوہ ناک و شرمناک دن تھا جب نہ صرف قومی نظریہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک بھی دولخت ہوگیا۔ اس صورت حال میں یہی نہیں کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوا اور پاکستان کی بے مثل فوج کے 90 ہزار فوجی بھارت نے قیدی بنالئے بلکہ ایسی مخدوش صورت حال میں مغربی پاکستان کی بقاء بھی سوالیہ نشان بن گئی۔
جنگ کے سبب دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی بندش کے ساتھ ساتھ ملکی زراعت و صنعت پر بھی سکوت طاری تھا۔ ایسے حالات میں حکومتیں اناج کے حوالہ سے کفایت شعاری سے کام لیتی ہیں اور راشن بندی کردیتی ہیں۔ چنانچہ تمام خاندانوں کو ان کی ضروریات کے مطابق یا اس سے کچھ کم اناج فراہم کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجاسکے اور ملک کو خانہ جنگی سے بچایا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں لوگوں کو راشن یعنی دال چاول کی فکر نہیں تھی اور نہ جان، مال اور آبرو کی کہ بھارت نے اگر اس حصہ پر بھی قبضہ کرلیا تو کیا ہوگا۔ فکر تھی تو اس بات کی کہ پان کا نشہ کیوں کر پورا کیا جائے؟ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کے بعد پان اور چھالیہ کی آمد بند ہوچکی تھی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے سمندری آمد و رفت کی بندش کے باعث سری لنکا اور دیگر ممالک سے بھی پان اور چھالیہ کی آمد بھی ممکن نہ تھی جب کہ بھارت تو تھا ہی دشمن۔
چنانچہ اس نشہ کو پورا کرنے کے لئے لوگوں نے کھجور کی گٹھلی اور املی کی گٹھلی کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جب کہ پالک کے پتوں، لہسوڑے کے پتوں اور امرود کے پتوں کو پان کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ۔ مختلف گٹھلیوں کے استعمال نے تو نشہ پورا کرنے میں کچھ مدد دی لیکن مختلف پتوں کے استعمال نے مزہ نہ دیا چنانچہ متبادل پتوں کے استعمال کو ترک کر کے محض مختلف گٹھلیوں کے استعمال کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جاری رکھا۔
اب سوال یہ تھا کہ اس نئے آئٹم کو کیا نام دیا جائے کیونکہ یہ پان تو بہرحال نہیں تھا چنانچہ گٹھلیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں اور گٹکوں کے استعمال کے باعث اس کانام گٹکا پڑگیا۔ بعد ازاں جب چھالیہ کی درآمد شروع ہوئی تو قوم اس وقت تک گٹکے کی لت میں پڑچکی تھی اور اب یہ منہ اور گلے کے کینسر کا ایک بڑا ذریعہ بننے کے ساتھ ہی حکومت اور انسانی صحت کے لئے کام کرنے والے اداروں اور افراد کے لئے درد سر بن چکا ہے۔
جنگ کے سبب دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی بندش کے ساتھ ساتھ ملکی زراعت و صنعت پر بھی سکوت طاری تھا۔ ایسے حالات میں حکومتیں اناج کے حوالہ سے کفایت شعاری سے کام لیتی ہیں اور راشن بندی کردیتی ہیں۔ چنانچہ تمام خاندانوں کو ان کی ضروریات کے مطابق یا اس سے کچھ کم اناج فراہم کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجاسکے اور ملک کو خانہ جنگی سے بچایا جاسکے۔ تاہم پاکستان میں لوگوں کو راشن یعنی دال چاول کی فکر نہیں تھی اور نہ جان، مال اور آبرو کی کہ بھارت نے اگر اس حصہ پر بھی قبضہ کرلیا تو کیا ہوگا۔ فکر تھی تو اس بات کی کہ پان کا نشہ کیوں کر پورا کیا جائے؟ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کے بعد پان اور چھالیہ کی آمد بند ہوچکی تھی اور تیز ہواؤں کی وجہ سے سمندری آمد و رفت کی بندش کے باعث سری لنکا اور دیگر ممالک سے بھی پان اور چھالیہ کی آمد بھی ممکن نہ تھی جب کہ بھارت تو تھا ہی دشمن۔
چنانچہ اس نشہ کو پورا کرنے کے لئے لوگوں نے کھجور کی گٹھلی اور املی کی گٹھلی کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جب کہ پالک کے پتوں، لہسوڑے کے پتوں اور امرود کے پتوں کو پان کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ۔ مختلف گٹھلیوں کے استعمال نے تو نشہ پورا کرنے میں کچھ مدد دی لیکن مختلف پتوں کے استعمال نے مزہ نہ دیا چنانچہ متبادل پتوں کے استعمال کو ترک کر کے محض مختلف گٹھلیوں کے استعمال کو چھالیہ کے متبادل کے طورپر جاری رکھا۔
اب سوال یہ تھا کہ اس نئے آئٹم کو کیا نام دیا جائے کیونکہ یہ پان تو بہرحال نہیں تھا چنانچہ گٹھلیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں اور گٹکوں کے استعمال کے باعث اس کانام گٹکا پڑگیا۔ بعد ازاں جب چھالیہ کی درآمد شروع ہوئی تو قوم اس وقت تک گٹکے کی لت میں پڑچکی تھی اور اب یہ منہ اور گلے کے کینسر کا ایک بڑا ذریعہ بننے کے ساتھ ہی حکومت اور انسانی صحت کے لئے کام کرنے والے اداروں اور افراد کے لئے درد سر بن چکا ہے۔
جزاک اللہ
ReplyDeleteمنشیات اور مذاہب عالم کا تقابل پر کچھ لکھئے