چائے کا ایک چھوٹا سا پودا ہے جو مشرق بعید میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان اور چین کی اہم پیداوار ہے۔ چائے کی پتی کی بڑے پیمانہ پر تجارت ہوتی ہے، سب سے زیادہ چائے پینے والے برطانیہ، ہالینڈ اور امریکہ کے باشندے ہیں۔ چینی چوتھی صدی عیسوی سے چائے کے عادی تھے اور اس کے پتوں کے ساتھ چاول، نمک اور سنگترہ کا چھلکا ملاکر خاص قسم کے جام بناتے تھے۔ یہ عادت تبت اور منگولیا کے باشندوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہاں سے روس کو منتقل ہوئی۔ پتی کو بھگو کر یا ابال کرپینے کی عادت پندرہویں صدی میں شروع ہوئی۔
چائے کی دو قسم کی پتیاں ہوتی ہیں۔ سبز پتی اور سیاہ پتی۔ توڑنے کے بعد پتوں کے خمیر دار ہونے کے لحاظ سے ہر پتی دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ چائے کا مشروب عام طور پر بھگونے یا ابالنے سے بنایا جاتا ہے۔چائے اپنی بناوٹ میں تھائین کے مواد پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنی بناوٹ میں کافئین کے مماثل ہے۔ اس کی شرح سبز چائے میں 5فیصد اور کالی چائے میں 3فیصد ہوتی ہے۔ تھائین اپنے فزیالوجیکل خواص میں کافئین کی طرح مگر سیاہ پتی میں تھائین زیادہ نقصان دہ ہے اور اس میں زہریلے مواد پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کہاجاسکتا ہے کہ بدن پر چائے کے بھی وہی اثرات ہیں جو قہوہ کے ہیں۔
چائے کی دو قسم کی پتیاں ہوتی ہیں۔ سبز پتی اور سیاہ پتی۔ توڑنے کے بعد پتوں کے خمیر دار ہونے کے لحاظ سے ہر پتی دوسری سے مختلف ہوتی ہے۔ چائے کا مشروب عام طور پر بھگونے یا ابالنے سے بنایا جاتا ہے۔چائے اپنی بناوٹ میں تھائین کے مواد پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنی بناوٹ میں کافئین کے مماثل ہے۔ اس کی شرح سبز چائے میں 5فیصد اور کالی چائے میں 3فیصد ہوتی ہے۔ تھائین اپنے فزیالوجیکل خواص میں کافئین کی طرح مگر سیاہ پتی میں تھائین زیادہ نقصان دہ ہے اور اس میں زہریلے مواد پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کہاجاسکتا ہے کہ بدن پر چائے کے بھی وہی اثرات ہیں جو قہوہ کے ہیں۔
No comments:
Post a Comment