Thursday, May 17, 2012

افیون اور خشخاش

افیون  کو خشخاش کے پودوں کی جڑوں سے لیا جاتا ہے۔ پہلے یہ مابین النہرین فارس، مصر اور وسطی ایشیاء کے علاقوں میں معروف تھی۔ بعد میں ہندوستان اور چین میں پھیلی۔ مغرب میں یہ پندرھویں صدی میں متعارف ہوئی اور وہ بھی سب سے پہلے انگلستان میں کیونکہ ہندوستا ن کے ساتھ اس کے تعلقات تھے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں لندن اور نارفوک کے شہروں میں افیون کے دانے پنساریوں کی دکانوں پر کھلے عام فروخت ہوتے تھے
خشخاش ایشیائی ملکوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ پودے کی اونچائی تقریبا ایک میٹرتک پہنچتی ہے۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں جب پھول آنے شروع ہوتے ہیں تو کسان پودے کے ڈوڈوں کو چھریوں سے بار بار اور تیز تیز ضربیں لگاتے ہیں تو اس سے لیس دار دودھ نما مادہ بہہ پڑتا ہے، اسے ڈوڈوں پر سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر اسے رگڑ کر اکٹھا کرلیا جاتا ہے اور خام افیون کا ایک بلاک سا بنا لیا جاتا ہے۔اس تھکا دینے والی محنت کے مقابلہ میں کسان کو کوئی خاص منفعت نہیں ہوتی۔ ایک ایکڑ زمین پربوئی گئی افیون سے سات کلو گرام افیون حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستان خام افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1985ء میں بھی ہندوستان کی سرکاری پیداوار 751ٹن تھی۔ دوسرے نمبر پر ترکی تھا جس کی پیدا وار 122 ٹن تھی اور پھر روس 116 ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ ان کے مقابلہ میں دنیا کے دیگر ممالک میں افیون کی پیداوار سرکاری حساب سے نسبتاً بہت ہی معمولی ہے۔

No comments:

Post a Comment