عربی میں شراب کے قدیم و معروف نام:
دور حاضر میں شراب نے اتنی ترقی کی ہے کہ اگر اس کے قبائل و افراد کے نام لکھنے لگیں تو سینکڑوں سے تجاوز کرجائیں لیکن مرور دھور میں جو اس کے معروف نام ملتے ہیں۔ وہ بقرار زیرنوک قلم سے قرطاس پر منتقل کئے جاتے ہیں۔
(1)
ام الاوثان:
گناہوں کی ماں۔
(2)
ام الدھر:
مکروہات و ناپسندیدگی کی ماں۔ زمانہ کی سخت۔
(3)
ام الزئیق:
حماقتوں اور تنگی کی ماں۔
(4)
ام الذنبیق:
مدہوش کرنے والی۔
(5)
ام عبا:
چہرہ دمکانے والی۔
(6)
ام الخبائث:
نجاستوں اور ناپاکیوں کی ماں۔
(7)
ام لیلی:
سیاہ رات، رات تاریک کرنے والی۔
(8)
ام النشوۃ:
بدمست و متعفن کرنے والی۔
(9)
ام الافراح:
خوشی کے بعد غمگیں کرنے والی۔
(10)
ام شملہ:
مکمل ڈھانک دینے والی۔
(11)
بنت الخابیۃ:
چھپا دینے والے کی بیٹی۔
(12)
بنت الدنان:
ذلت کے قریب کرنے والی۔
(13)
بنت العنقود:
کچے انگور کے خوشات سے کشید کی ہوئی شراب۔
(14)
بنت الکرم:
انگور کی بیٹی، انگوری شراب۔
(15)
مرز:
جوار سے تیار کی ہوئی شراب۔
(16)
بتع:
شہد سے بنائی جانے والی شراب۔
(17)
بسر:
کچی کھجوروں سے بنائی گئی شراب۔
(18)
بیب:
منقی سے تیار کی ہوئی شراب۔
(19)
القندید:
زعفران سے بنائی ہوئی خوشبو دار شراب۔ (اسماء الخمر و العصیر از علامہ محمد الحسن بن رمضان النحویؒ )
شراب کا موجد شاہ ایران جمشیدبتایا گیا ہے۔ خمر لغت میں انگور سے نچوڑی ہوئی شراب کو کہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے زندانی مصاحبوں میں سے ایک نے کہا:
انی ارانی اعصر خمرا۔
’’میں نے خواب میں د یکھا کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں‘‘۔ (1)(سورہ یوسف)
فارسی میں خمر کو مے کہتے ہیں۔ مے اصل میں غت دری میں زہر کو کہتے ہیں۔ جمشید شاہ ایران انگور کھانے کا عادی تھا۔ ایک دفعہ انگور آئے رکھ دئیے اور انہیں کھانا بھول گئے۔ ہفتوں کے بعد جب یاد آئے، منگا کر دیکھا تو سڑ گئے تھے۔ جمشید نے کہا یہ مے یعنی زہر بن گئے ہیں۔ ان کو زمین میں دبا دو۔ حکم ملتے ہی برتن کے سمیت زمین میں دبادئیے گئے۔ ایک لونڈی کو درد شقیقہ ہوا کرتا تھا۔ اسے درد کی تکلیف ہوئی تو اس نے تنگ آکر خود کشی کا ارادہ کیا۔ ا س نے جاکر دفن کئے ہوئے اس مے کو نکال لیا۔ جو سڑے ہوئے انگوروں کا عرق اس نے خود دبایا تھا۔ اس عرق کووہ پی گئی جس سے اسے نشہ ہوگیا اور وہ گانے بجانے لگی۔
اس تغیر حالت پر استعجاب کیا گیا جب لونڈی کا نشہ اتر گیا تب اس سے پوچھا گیا تو اس نے مے کا قصہ سنادیا پھر شاہ کج کلاہ بھی اس پر جھک پڑے اور اسی طرح انگوروں سے شراب یعنی مے کشید کی جانے لگی اور اس کے ودر چلنے لگے اور بادشاہ سلامت دنیا میں شارب خوری کے موجد بنے، جام جم بھی اسی لئے مشہور و معروف ہوئی۔ جام جم اس ساغر کو کہتے ہیں جس پر جمشید شاہ ایران کے دور میں سات خط کھینچیگئے تھے۔ اول درجہ کا شراب خور اس کو سمجھا جاتا تھا جو سات خط تک خالص شراب پی جاتا تھا۔ (ملاحظہ الجمال و الکمال ص:27)
(نوٹ):
شراب کی کوئی انواع و اقسام ہیں۔ اس لئے جمشید کو صرف ایک قسم کی شراب کا وہ بھی صرف ایک علاقہ میں موجد مانا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے لوگوں میں شراب کا رواج تھا۔ انجیل میں اس کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے آتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زندانی دور میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شمسی کیلنڈر، نوروز، شراب، اسلحہ، ریشمی کپڑا اور بہت سے دوسرے علوم و فنون کا موجد جمشید ہی خیال کیا جاتا ہے۔ کیا خوب کہا گیا ہے:
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
دور حاضر میں شراب نے اتنی ترقی کی ہے کہ اگر اس کے قبائل و افراد کے نام لکھنے لگیں تو سینکڑوں سے تجاوز کرجائیں لیکن مرور دھور میں جو اس کے معروف نام ملتے ہیں۔ وہ بقرار زیرنوک قلم سے قرطاس پر منتقل کئے جاتے ہیں۔
(1)
ام الاوثان:
گناہوں کی ماں۔
(2)
ام الدھر:
مکروہات و ناپسندیدگی کی ماں۔ زمانہ کی سخت۔
(3)
ام الزئیق:
حماقتوں اور تنگی کی ماں۔
(4)
ام الذنبیق:
مدہوش کرنے والی۔
(5)
ام عبا:
چہرہ دمکانے والی۔
(6)
ام الخبائث:
نجاستوں اور ناپاکیوں کی ماں۔
(7)
ام لیلی:
سیاہ رات، رات تاریک کرنے والی۔
(8)
ام النشوۃ:
بدمست و متعفن کرنے والی۔
(9)
ام الافراح:
خوشی کے بعد غمگیں کرنے والی۔
(10)
ام شملہ:
مکمل ڈھانک دینے والی۔
(11)
بنت الخابیۃ:
چھپا دینے والے کی بیٹی۔
(12)
بنت الدنان:
ذلت کے قریب کرنے والی۔
(13)
بنت العنقود:
کچے انگور کے خوشات سے کشید کی ہوئی شراب۔
(14)
بنت الکرم:
انگور کی بیٹی، انگوری شراب۔
(15)
مرز:
جوار سے تیار کی ہوئی شراب۔
(16)
بتع:
شہد سے بنائی جانے والی شراب۔
(17)
بسر:
کچی کھجوروں سے بنائی گئی شراب۔
(18)
بیب:
منقی سے تیار کی ہوئی شراب۔
(19)
القندید:
زعفران سے بنائی ہوئی خوشبو دار شراب۔ (اسماء الخمر و العصیر از علامہ محمد الحسن بن رمضان النحویؒ )
شراب کا موجد شاہ ایران جمشیدبتایا گیا ہے۔ خمر لغت میں انگور سے نچوڑی ہوئی شراب کو کہتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے زندانی مصاحبوں میں سے ایک نے کہا:
انی ارانی اعصر خمرا۔
’’میں نے خواب میں د یکھا کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں‘‘۔ (1)(سورہ یوسف)
فارسی میں خمر کو مے کہتے ہیں۔ مے اصل میں غت دری میں زہر کو کہتے ہیں۔ جمشید شاہ ایران انگور کھانے کا عادی تھا۔ ایک دفعہ انگور آئے رکھ دئیے اور انہیں کھانا بھول گئے۔ ہفتوں کے بعد جب یاد آئے، منگا کر دیکھا تو سڑ گئے تھے۔ جمشید نے کہا یہ مے یعنی زہر بن گئے ہیں۔ ان کو زمین میں دبا دو۔ حکم ملتے ہی برتن کے سمیت زمین میں دبادئیے گئے۔ ایک لونڈی کو درد شقیقہ ہوا کرتا تھا۔ اسے درد کی تکلیف ہوئی تو اس نے تنگ آکر خود کشی کا ارادہ کیا۔ ا س نے جاکر دفن کئے ہوئے اس مے کو نکال لیا۔ جو سڑے ہوئے انگوروں کا عرق اس نے خود دبایا تھا۔ اس عرق کووہ پی گئی جس سے اسے نشہ ہوگیا اور وہ گانے بجانے لگی۔
اس تغیر حالت پر استعجاب کیا گیا جب لونڈی کا نشہ اتر گیا تب اس سے پوچھا گیا تو اس نے مے کا قصہ سنادیا پھر شاہ کج کلاہ بھی اس پر جھک پڑے اور اسی طرح انگوروں سے شراب یعنی مے کشید کی جانے لگی اور اس کے ودر چلنے لگے اور بادشاہ سلامت دنیا میں شارب خوری کے موجد بنے، جام جم بھی اسی لئے مشہور و معروف ہوئی۔ جام جم اس ساغر کو کہتے ہیں جس پر جمشید شاہ ایران کے دور میں سات خط کھینچیگئے تھے۔ اول درجہ کا شراب خور اس کو سمجھا جاتا تھا جو سات خط تک خالص شراب پی جاتا تھا۔ (ملاحظہ الجمال و الکمال ص:27)
(نوٹ):
شراب کی کوئی انواع و اقسام ہیں۔ اس لئے جمشید کو صرف ایک قسم کی شراب کا وہ بھی صرف ایک علاقہ میں موجد مانا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے لوگوں میں شراب کا رواج تھا۔ انجیل میں اس کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے آتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زندانی دور میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ شمسی کیلنڈر، نوروز، شراب، اسلحہ، ریشمی کپڑا اور بہت سے دوسرے علوم و فنون کا موجد جمشید ہی خیال کیا جاتا ہے۔ کیا خوب کہا گیا ہے:
اگر دیکھا بھی اس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا
نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو
No comments:
Post a Comment