قہوہ کا پودا بہت سے ملکوں میں اگتا ہے جیسے جزیرۃ العرب، حبشہ، سیلون، برازیل اور کئی ایک افریقی ممالک اور اس کانام عربی قہوہ ہے۔ سبز قہوہ کے بھگوئے ہوئے اور نہ بھونے ہوئے بیج بے ذائقہ ہوتے ہیں،قہوہ کو بھوننے یا سینکنے سے ایسے مخصوص عطری مرکبات پیدا ہوتے ہیں جو کافؤل (Cafeol) اور کافؤن (Cafeon) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عرب ممالک میں قہوہ کا استعمال نویں صدی عیسوی سے عام ہوا اور پھر سترہویں صدی میں یورپ کو منتقل ہوا۔
شروع شروع میں اسے مقبولیت حاصل نہ ہوئی بلکہ اسے کئی ادیبوں نے اپنے مضامین میں مذاق کا نشانہ بنایا۔ انیسویں صدی کی ابتداء سے قہوہ کا استعمال ہرجگہ ہونے لگا بلکہ لوگ اس پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اور یہیں سے قہوہ کے نشہ سے کئی تکالیف پہنچنے لگیں۔ کئی طبی رسالوں نے یورپی ممالک اور امریکہ میں نمودار ہونے والی ان تکالیف کا ذکر کیا۔1905ء میں ولندیزی اور بلیجیائی سب سے زیادہ کافی استعمال کرتے تھے، ان میں سے ہر فرد اوسطاً نو یا دس کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال میں لاتا تھا۔ پھر جرمن تھے جو سال میں 3کلو گرام قہوہ استعمال کرتے تھے۔ سب سے آخر میں فرانسیسی تھے ان کا ایک آدمی 2کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال کرتا تھا۔ عربی اور اسلامی ممالک میں قہوہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ مہمان نوازی کی علامت اور سخاوت کا نشان ہے۔ یاد رہے کہ ان ملکوں میں چونکہ قہوہ تھوڑی مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس سے یورپی ممالک میں د یکھے جانے والے شدید قسم کے نشئی پیدا نہیں ہوئے۔
شروع شروع میں اسے مقبولیت حاصل نہ ہوئی بلکہ اسے کئی ادیبوں نے اپنے مضامین میں مذاق کا نشانہ بنایا۔ انیسویں صدی کی ابتداء سے قہوہ کا استعمال ہرجگہ ہونے لگا بلکہ لوگ اس پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اور یہیں سے قہوہ کے نشہ سے کئی تکالیف پہنچنے لگیں۔ کئی طبی رسالوں نے یورپی ممالک اور امریکہ میں نمودار ہونے والی ان تکالیف کا ذکر کیا۔1905ء میں ولندیزی اور بلیجیائی سب سے زیادہ کافی استعمال کرتے تھے، ان میں سے ہر فرد اوسطاً نو یا دس کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال میں لاتا تھا۔ پھر جرمن تھے جو سال میں 3کلو گرام قہوہ استعمال کرتے تھے۔ سب سے آخر میں فرانسیسی تھے ان کا ایک آدمی 2کلو گرام سالانہ قہوہ استعمال کرتا تھا۔ عربی اور اسلامی ممالک میں قہوہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ مہمان نوازی کی علامت اور سخاوت کا نشان ہے۔ یاد رہے کہ ان ملکوں میں چونکہ قہوہ تھوڑی مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس سے یورپی ممالک میں د یکھے جانے والے شدید قسم کے نشئی پیدا نہیں ہوئے۔
No comments:
Post a Comment