Thursday, May 17, 2012

کوڈین

افیون میں کوڈئین کی بہت معمولی مقدار پائی جاتی ہے مگر دور حاضر کی صنعت نے اسے مارفین کے درجہ تک پہنچادیا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس، ہندوستان سے برآمد شدہ ایک سوٹن خام افیون کو کوڈئین کے استعمال میں صرف کرتا ہے۔ یہ باربے سائنسدان تھا جس نے سب سے پہلے 1834ء میں اپنے خانگی تجربات میں اس حقیقت کو معلوم کرلیا کہ اگر 65 اور 130 ملی گرام کے درمیان کوڈئین کی مقدار استعمال کی جائے تو اس سے خواب آور اثرات پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ پاگل پن اور جنون کے اثرات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ زکام اور تنفس کی بیماریوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کوڈئین کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ بعض دو۱ساز اور کیمیاوی صنعتیں اب اس بات پر توجہ دے رہی ہیں کہ خشخاش پیدا کرنے والے علاقوں میں ہی کوڈئین تیار کرلی جائے تاکہ مخصوص گروہ افیون کو اسمگل نہ کرلیں۔ جدید تجربات نے واضح کردیا ہے کہ خشخاش کی ایک قسم جسے پتلے پتوں والی خشخاش کہا جاتا ہے، میں ٹیبائین کی کافی مقدار پائی جاتی ہے جو نشہ کاسبب نہیں بنتی۔ لہذا آج کل انڈسٹری اس کلویڈ سے کوڈئین تیار کررہی ہے۔
پھیپھڑوں کے ورم اور تنفس کی نالیوں کے علاج میں کوڈئین زیادہ تر پاؤڈر یا سیرپ کی صورت میں نیز انجکشن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوڈئین کا نشہ اپنی مدت اور خطرہ کے لحاظ سے مارفین یا ہیروئن کے نشہ سے کم خطرناک ہے تاہم اس سے اس شدید خطرہ میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی جس میں نشہ باز مبتلا ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment