قدم زمانہ سے لوگ ’’سحری نباتات‘‘ کے خواص سے واقف ہیں۔ قدیم مصریوں نے خشخاش کی کاشت کی اور اس سے آتش عشق کو بھڑکانے والے خواب آور، پرسکون اور دردوں کے لئے مسکن مشروبات بنائے۔ اسی طرح قدیم ادوار میں قنب الہندی ہندوستان کے میدانوں میں کاشت کی جاتی تھی جس سے حشیش تیار کی جاتی، اسے مذہبی تقریبات میں شخصیات کی اثر پذیری کے لئے استعمال کیا جاتا۔ ان بوٹیوں اور ان سے تیار کردہ مشروبات کا چلن مشرق میں تو عام رہا مگر مشرق سے مغرب کی طرف ان کی منتقلی کی رفتار بہت سست رہی۔
اگر ہم دواؤں کی فہرست میں موجود چند ایک مرکبات جیسے اوڈانوم جس کا استعمال پندرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوا، کو مستثنی کردیں تو حشیش اور افیون کا مغرب میں عملی استعمال انیسویں صدی میں جاکر ہوا۔ زیادہ ترلوگ ادبی اور افسانوی لٹریچر کے ذریعہ ان منشیات سے متعارف ہوئے جیسے بوڈلیر کی کتاب یعنی خوابوں کی جنت۔ اس ادبی واقفیت کے بعد طبی اور فزیالوجی سطح پر دلچسپی شروع ہوئی۔ 1840 ء میں ایک سائنسدان مورو نے ایک اہم تحقیق شائع کی جس میں حشیش کے استعمال سے پیدا ہونے والی عقلی بے چینی اور فریب نظر و خیال کا ذکر تھا۔ بعد ازاں سائنسی تحقیق و مطالعہ نے وسعت اختیار کرلی اور نشہ سے جنم لینے والی دشواریوں اور تکلیفوں پر تحقیق کی گئی۔
دوا سازی اور کیمسٹری کے میدان میں بے پناہ صنعتی ترقی ہوئی۔ افیون کے مرکبات جیسے مارفین، کوڈئین، ہیروئن اور پھر کوکائین وغیرہ عالمی منڈیوں میں بڑی مقدار میں پہنچ گئے تو اس کے ساتھ ہی طبی تنبیہ یعنی میڈیکل وارننگ بھی شروع ہوگئی۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسمگلروں نے نشہ آور مرکبات پر توجہ دی۔ مارفین، کوکائین، ایتھر اور ہیروئن کے استعمال کے نتیجہ میں اموات ہوئیں تو حکومتیں اس اہم معاشرتی خطرہ کا سد باب کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اس وقت سے منشیات کا مسئلہ معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ پہلے ملکی سطح پر، پھر بین الاقوامی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے قوانین بنائے گئے اورکئی تنظیمیں وجود میں آئیں تاکہ نشہ بازی اور اس کے سد باب کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک عالمی تنظیم ، بین الاقوامی تنظیم برائے انسداد افیون و دیگر مضرادویات بنائی گئی جو بعد میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے انسداد منشیات میں تبدیل ہوگئی۔
جس طرح منشیات کے استعمال کی وبا عام ہورہی ہے، کیمسٹری اور دواسازی کی صنعت میں ترقی ہورہی ہے۔ اسی کے مطابق قانونی اور حفاظتی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ اب تو ہر روز ایک نئی دوا بازار میں آرہی ہے جو نشہ آور ادویہ کے خواص اپنے دامن میں لئے ہوتی ہے اور جس کا زیادہ عرصہ تک استعمال نشہ کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دواء کا محتاج بنادیتا ہے۔
منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس میں ہمارے لئے صاف اشارہ ہے کہ یہ مہلک مواد ہماری زندگیوں کے لئے کس قدر تباہ کن ہے اور اس کا روزانہ کا استعمال بے چارگی، لاچاری، مفلسی اور محتاجی تک لے جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نہایت ہی خطرناک نفسیاتی اور جسمانی عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں سے ہم نشہ آور مشروبات (شرابوں) تمباکو، قہوہ اور چائے کا ذکر کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں معتدل انداز سے استعمال کیا جائے تو یہ خطرناک نہیں ہیں حالانکہ فی الحقیقت یہ بہت خطرناک ہیں اور معاشرے کے وجود کو اس طرح کھوکھلا کردیتے ہیں جیسے لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے کو کمزور اور تباہ کردیتے ہیں۔ لندن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیاتی امراض کے صدر کہتے ہیں:
’’الکحل وہ واحد سستا زہر ہے جو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے اور ہر اس شخص کو بڑی آسانی سے دستیاب ہے جو اپنے مسائل سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا ہر مضطرب شخصیت کا انسان اسے بکثرت استعمال کررہا ہے اور نتیجۃً مزید پریشانی اور بیماری کا شکار بن رہا ہے۔ الکحل کا ایک گھونٹ زہرناکی کا سبب بنتا ہے اور اس سے یا تو ہیجان پیدا ہوتا ہے یا ذہنی غیر حاضری۔ باقاعدہ شراب نوشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے بالکل ناکارہ ہوجاتی ہے اور ایک قسم کے جنون کا شکار ہوجاتی ہے‘‘۔
اگر ہم دواؤں کی فہرست میں موجود چند ایک مرکبات جیسے اوڈانوم جس کا استعمال پندرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوا، کو مستثنی کردیں تو حشیش اور افیون کا مغرب میں عملی استعمال انیسویں صدی میں جاکر ہوا۔ زیادہ ترلوگ ادبی اور افسانوی لٹریچر کے ذریعہ ان منشیات سے متعارف ہوئے جیسے بوڈلیر کی کتاب یعنی خوابوں کی جنت۔ اس ادبی واقفیت کے بعد طبی اور فزیالوجی سطح پر دلچسپی شروع ہوئی۔ 1840 ء میں ایک سائنسدان مورو نے ایک اہم تحقیق شائع کی جس میں حشیش کے استعمال سے پیدا ہونے والی عقلی بے چینی اور فریب نظر و خیال کا ذکر تھا۔ بعد ازاں سائنسی تحقیق و مطالعہ نے وسعت اختیار کرلی اور نشہ سے جنم لینے والی دشواریوں اور تکلیفوں پر تحقیق کی گئی۔
دوا سازی اور کیمسٹری کے میدان میں بے پناہ صنعتی ترقی ہوئی۔ افیون کے مرکبات جیسے مارفین، کوڈئین، ہیروئن اور پھر کوکائین وغیرہ عالمی منڈیوں میں بڑی مقدار میں پہنچ گئے تو اس کے ساتھ ہی طبی تنبیہ یعنی میڈیکل وارننگ بھی شروع ہوگئی۔
انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں اسمگلروں نے نشہ آور مرکبات پر توجہ دی۔ مارفین، کوکائین، ایتھر اور ہیروئن کے استعمال کے نتیجہ میں اموات ہوئیں تو حکومتیں اس اہم معاشرتی خطرہ کا سد باب کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اس وقت سے منشیات کا مسئلہ معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ پہلے ملکی سطح پر، پھر بین الاقوامی سطح پر اس کی روک تھام کے لئے قوانین بنائے گئے اورکئی تنظیمیں وجود میں آئیں تاکہ نشہ بازی اور اس کے سد باب کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک عالمی تنظیم ، بین الاقوامی تنظیم برائے انسداد افیون و دیگر مضرادویات بنائی گئی جو بعد میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے انسداد منشیات میں تبدیل ہوگئی۔
جس طرح منشیات کے استعمال کی وبا عام ہورہی ہے، کیمسٹری اور دواسازی کی صنعت میں ترقی ہورہی ہے۔ اسی کے مطابق قانونی اور حفاظتی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ اب تو ہر روز ایک نئی دوا بازار میں آرہی ہے جو نشہ آور ادویہ کے خواص اپنے دامن میں لئے ہوتی ہے اور جس کا زیادہ عرصہ تک استعمال نشہ کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دواء کا محتاج بنادیتا ہے۔
منشیات کے استعمال سے شرح اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، اس میں ہمارے لئے صاف اشارہ ہے کہ یہ مہلک مواد ہماری زندگیوں کے لئے کس قدر تباہ کن ہے اور اس کا روزانہ کا استعمال بے چارگی، لاچاری، مفلسی اور محتاجی تک لے جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نہایت ہی خطرناک نفسیاتی اور جسمانی عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ ان مرکبات میں سے ہم نشہ آور مشروبات (شرابوں) تمباکو، قہوہ اور چائے کا ذکر کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں معتدل انداز سے استعمال کیا جائے تو یہ خطرناک نہیں ہیں حالانکہ فی الحقیقت یہ بہت خطرناک ہیں اور معاشرے کے وجود کو اس طرح کھوکھلا کردیتے ہیں جیسے لکڑی کو گھن کھا جاتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے کو کمزور اور تباہ کردیتے ہیں۔ لندن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیاتی امراض کے صدر کہتے ہیں:
’’الکحل وہ واحد سستا زہر ہے جو پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے اور ہر اس شخص کو بڑی آسانی سے دستیاب ہے جو اپنے مسائل سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے لہذا ہر مضطرب شخصیت کا انسان اسے بکثرت استعمال کررہا ہے اور نتیجۃً مزید پریشانی اور بیماری کا شکار بن رہا ہے۔ الکحل کا ایک گھونٹ زہرناکی کا سبب بنتا ہے اور اس سے یا تو ہیجان پیدا ہوتا ہے یا ذہنی غیر حاضری۔ باقاعدہ شراب نوشی کرنے والے لوگوں کی اکثریت اخلاقی لحاظ سے بالکل ناکارہ ہوجاتی ہے اور ایک قسم کے جنون کا شکار ہوجاتی ہے‘‘۔
No comments:
Post a Comment