قنب ایک پودا ہے جو پہلے وسطی ایشیا میں پیدا ہوا اور بعد میں دیگر ملکوں میں پھیل گیا۔ کچھ ماہرین نباتات اور بالخصوص سائنسدان بوکیہ کی رائے کے مطابق قنبکی صرف ایک ہی قسم ہے البتہ اس پودے کی شکل مختلف ملکوں اور بلندیوں کے لحاظ سے بڑی آسانی اورجلدی سے بدل جاتی ہے۔ قنب یورپ میں اگتا ہے۔ دو میٹر تک اس کی بلندی ہوتی ہے، اسے قنب کی چھال حاصل کرنے کے لئے کاشت کیاجاتا ہے تاکہ اسے رسیوں، بوریوں وغیرہ اور بنائی کی صنعت میں استعمال کیا جائے نیز اس کے روغنی بیجوں سے استفادہ کی خاطر اسے کاشت کیا جاتا ہے۔
بعض علاقوں جیسے ایشیاء، ہندوستان، ایران، یونان اور شمالی افریقہ کے بالائی خطوں میں یہ پودا خشکی اور ملک کی آب و ہوا کے مطابق بڑھتا ہے۔ اس کا قد پست ہوتا ہے اور بنائی کے مطلب کے لئے اس کی قدر و قیمت بہت کم ہوتی ہے۔
مادہ ، پودے کے شگوفوں کی ڈوڈیوں کے اردگرد سے ایک لیس دار مواد نکلتا ہے جو پودے کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ مواد فعال فزیا لوجیکل خواص سے بھرپور ہوتاہے۔ اس مختلف قسم کے پودے کو قنب ہندی کہا جاتا ہے اور یہی وہ پودا ہے جو نشہ آور مواد فراہم کرتا ہے ، اس مواد کا نام حشیش ہے۔
قدیم زمانہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اس لیس دار مادہ سے ایک مخصوص نشہ کا کام لیا جاتا ہے۔ ہندو جوگیوں نے اس مواد سے ’’سحری مشروبات‘‘ تیار کئے تھے جنہیں وہ اپنی مذہبی تقریبات میں لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس پودے کو عام لوگوں نے بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور یہ ہندوستان سے مشرق وسطی ایران، ترکی، مصر وغیرہ کی طرف منتقل ہوگیا اور پھر وہاں سے شمالی افریقہ، اسپین، مرکزی اور شمالی یورپ اور پھر آخر امریکہ پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی پاشا وہ واحد شخص ہے جس نے اس پودے کو مصر میں پہنچایا تاکہ اس کے ریشوں کو بنائی کے لئے استعمال کیا جائے۔
بعض علاقوں جیسے ایشیاء، ہندوستان، ایران، یونان اور شمالی افریقہ کے بالائی خطوں میں یہ پودا خشکی اور ملک کی آب و ہوا کے مطابق بڑھتا ہے۔ اس کا قد پست ہوتا ہے اور بنائی کے مطلب کے لئے اس کی قدر و قیمت بہت کم ہوتی ہے۔
مادہ ، پودے کے شگوفوں کی ڈوڈیوں کے اردگرد سے ایک لیس دار مواد نکلتا ہے جو پودے کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ مواد فعال فزیا لوجیکل خواص سے بھرپور ہوتاہے۔ اس مختلف قسم کے پودے کو قنب ہندی کہا جاتا ہے اور یہی وہ پودا ہے جو نشہ آور مواد فراہم کرتا ہے ، اس مواد کا نام حشیش ہے۔
قدیم زمانہ سے یہ بات معلوم ہے کہ اس لیس دار مادہ سے ایک مخصوص نشہ کا کام لیا جاتا ہے۔ ہندو جوگیوں نے اس مواد سے ’’سحری مشروبات‘‘ تیار کئے تھے جنہیں وہ اپنی مذہبی تقریبات میں لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس پودے کو عام لوگوں نے بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور یہ ہندوستان سے مشرق وسطی ایران، ترکی، مصر وغیرہ کی طرف منتقل ہوگیا اور پھر وہاں سے شمالی افریقہ، اسپین، مرکزی اور شمالی یورپ اور پھر آخر امریکہ پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی پاشا وہ واحد شخص ہے جس نے اس پودے کو مصر میں پہنچایا تاکہ اس کے ریشوں کو بنائی کے لئے استعمال کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment