Monday, June 4, 2012

منشیات


اﷲ عزوجل نے تمام بنی آدم کو مکرم و محترم ٹھہرایا ہے۔ اس نے ان کے لئے طیب چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اﷲ نے انسانوں کو ہر اس چیز سے روکا ہے جو ان کے دین کو خراب کردے اور ان کے مفادکو نقصان پہنچائے۔ شریعت اسلامی نے پانچ ضروریات جن پر صالح معاشرہ کا قیام ہوتا ہے ، کی حفاظت فرض قرار دی ہے یعنی جان، عقل، دین، مال اور عزت۔ محکم نصوص کی رو سے ہر وہ عمل حرام ہے جس سے ان ضروریات خمسہ کو نقصان پہنچے۔
اﷲ تعالیٰ نے نوع انسانی کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سب سے عظم ترین نعمت عقل ہے۔ عقل ہی تمام شرعی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے لئے بنیادی شرط ہے۔ اس نعمت کو بے کار کرنا اور کسی بھی طریقہ سے اسے بگاڑنا بہت بڑا جرم ہے۔ ایسا جرم جو انسان کی اہم ترین صلاحیتوں کو معطل کردیتا ہے۔ عقل کے ذریعہ انسان خدا کی ذات کے متعلق سوچتا ہے۔ اﷲ کی مخلوق میں غور وفکر کرتا ہے۔ اپنے اردگرد کی کائنات میں تدبر کرتا ہے اور عقل ہی کے ذریعہ ان تمام چیزوں سے استفادہ کرسکتا ہے جو اﷲ نے اس کے لئے مسخرکردی ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو اور تمام انسانیت کو خوشحال کرسکے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بلاشبہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں، رات اور دن کے اختلاف میں اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر سمندر میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جس کو اﷲ نے آسمان کی جانب سے نازل کیا اور پھر اس پانی سے زمین مردہ کو زندہ فرمایا اور ہر قسم کے حیوانات زمین پر پھیلادئیے اور ہواؤں کے رخ بدلنے میں اور زمین و آسمان کے درمیان حکم الہی کے پابند رہنے والے بادلوں میں، اہل عقل کے لئے بڑے دلائل ہیں‘‘۔ (1؂)
دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ انسان عقل کی اس بیش بہا نعمت کو خود اپنے ہاتھوں یا دوسروں کے اثر سے ضائع اور بے کار کردیتا ہے، وہ منشیات اور مسکرات کے استعمال سے عقل کو تباہ کردیتا ہے۔ منشیات کے بارے میں گفتگو شروع کرتے وقت ہم اپنے سامنے دومتناقض صورتیں پاتے ہیں۔ اول یہ کہ دینی اور اخلاقی قواعد تمام قسم کی منشیات کو عقل اور بد ن کے لئے خطرناک ترین زہریں گردانتے ہیں اور انہیں ذہنی اور جسمانی عدم توازن کا سبب سمجھتے ہیں۔ دوم ہمارے سامنے دردناک صورت احوال ہے، تمام معاشروں میں منشیات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہیں اور ان کا پھیلاؤ روز بروز بڑھتا چلاجاتا ہے ۔ فرد اور معاشرہ کو یکساں طور پر تباہی کی طرف دھکیلنے والے ان خطروں کی طرف توجہ نہیں کی جارہی۔ منشیات کی مستقل عادت کو ’’آزاد معاشروں‘‘ کی نمایاں علامت سمجھا جارہا ہے یا بالفاظ صحیح ایسے معاشروں میں جو ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوچکے ہوں۔ ان معاشروں کے لوگ مست سانڈ کی طرح لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ان کے پیچیدہ مسائل نے نہایت سنگین صورت حال اختیار کرلی ہے۔ اب ان مسائل کا حل دنیا کے ماہر ترین اور ذہین ترین شخصیتوں کے لئے بھی مشکل ہوچکا ہے۔
منشیات کا مسئلہ کسی خاص قسم سے متعلق نہیں ہے یا یہ چند ملکوں یالوگوں کے ایک محدود طبقہ تک محدود نہیں رہا بلکہ آج تو جدید صنعتی ممالک، ہر آئے دن، نت نئی ، دوا ایجاد کررہے ہیں جو عقل کو تباہ اور دماغ کو خراب کردیتی ہے۔ ان منشیات کا استعمال مشرق و مغرب تمام ممالک میں ہورہا ہے۔ گزشتہ زمانہ میں ان کا استعمال خوشحال اور مالدار گھرانوں تک محدود تھا مگر اب تو اس جنونی نشہ کا تمام طبقے شکار ہیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قومیں، منشیات کے لئے جس مواد کو تیار کرتی ہیں، اس کا زیادہ ترحصہ خود انہی قوموں کی روز مرہ زندگی کا ایک جزو بن جاتا ہے بلکہ بہت سے لوگ ان منشیات کو اپنی بنیادی ضروریات زندگی، غذا، دوا اور لباس پر ترجیح دیتے ہیں۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال نے قوموں کو پس ماندہ بنادیا ہے۔ پیداوار اور ترقی کے حساب سے پس ماندہ، عقلی اور جسمانی پس ماندگی اس پر مستزاد ہے۔ منشیات کے معاملات کے عرب محکمہ نے اپنی رپورٹ 1982ء میں یوں پیش کی:
’’عرب جمہوریہ یمن کو ہر سال تین ہزار پانچ سو ملین ’’کام کے گھنٹوں‘‘ کا خسارہ ہورہا ہے۔ اس قیمتی وقت کو یمن کے باشندے قات کے پتے اکٹھا کرنے اور چبانے پر ضائع کرتے دیتے ہیں۔ اس اسلامی ملک کی مطلوبہ پیداوار میں اس (قات کے پتے چبانے کے) عمل سے کمی ہوتی چلی جارہی ہے اور اس کی اقتصادیات کو زبردست نقصان کا سامنا ہے جبکہ ایک ہزار ملین ریال مالیت کے پتے، یمن کے شہری سالانہ چباجاتے ہیں‘‘۔
یہی بات ہم کوکا اور بتلہ کے پتوں کے چبانے کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں۔ قہوہ، چائے، تمام قسم کے الکحل کے مشروبات پینے اور ماریوانا کی تدخین smoking کے متعلق بھی یہی بات ہے۔ ان تمام منشیات سے فرد اور معاشرہ دونوں کو بہت سی خرابیاں پہنچتی ہیں۔ دنیا کے مخصوص محکموں کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے گرافوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس برائی کے خطرات سے ہمارا عالم اسلام بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس کے اثرات جرائم کی روز افزوں تعداد سے ظاہر ہورہے ہیں۔ خاندان کا شیراہ بکھر ا ہی چاہتا ہے، اخلاقی گراوٹ عام ہے، عقلی اور جسمانی صحت میں کمی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے اثرات ہیں جو ہر آئے دن سامنے آرہے ہیں۔ دور حاضر کی ایک بیماری ایڈز بھی ان تباہ کن منشیات کا ایک نتیجہ ہے۔

No comments:

Post a Comment